Molana Noor Alam Khalil Amini kuch yaden 2



دارالعلوم دیوبند میں عربی اول کا پہلا دن تھا،تمرین عربی کا ہمارا پہلا سبق تھا، مفتی اسعد اللہ صاحب سلطان پوری دامت برکاتہم ( جو اس وقت معین المدرسين تھے، بعد میں پھر نگراں دارالافتاء کے طور پر ان کا تقرر ہوا،) کے پاس، القراءة الواضحة اول پڑھنا تھا، ایک ترتیب میں صرف 15 طلبہ، کہ بآسانی ہر ایک طالب علم پر نظر رکھتے ہوئے، بہ سہولت ہر ایک کا سبق سنا جاسکے، کسی کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ کوئی چالاکی کرے اور استاذ کی نظر سے بچ جائے، جیسے تبلیغ والے مختصر جماعت ہونے پر گول دائرے میں بیٹھتے ہیں ویسے ہی بیٹھنا ہوتا تھا، ہاں استاذ محترم کی نشست آرام دہ ہو اس کے لیے یہ انتظام تھا کہ طلبہ کی یہ ترتيبیں، کسی نہ کسی ستون کے ساتھ لگائی جاتیں تاکہ استاد آرام سے بیٹھ سکیں

 مفتی صاحب نے ہم لوگوں سے جان پہچان کرنے کے بعد پوچھا، ماشاء اللہ آپ حضرات کا دارالعلوم دیوبند میں داخلہ ہو گیا ہے یہ بتائیں کہ یہاں داخلہ لینے کا مقصد کیا ہے؟ مختلف طلبہ نے ملتے جلتے سے مختلف جواب دیے اور مفتی صاحب نے تقریباً ہر ایک کے جواب پر سوالیہ نشان لگا دیا 

مثلاً : اللہ کی رضا حاصل ہو! 

اللہ تو کسی بھی نیک عمل سے راضی ہو سکتے ہیں، تعلیم ہی کیا ضروری ہے؟! 

دین سیکھنے کے لیے!

ضرورت بھر دین تو جماعت میں بھی سیکھ سکتے ہیں؟! 

مفتی صاحب نے پھر سمجھاتے ہوئے بتایا کہ، دیکھیے یہ بات بالکل درست ہے کہ ہر عمل محض اللہ کی خوشنودی و رضامندی کے لیے ہی ہونا چاہیے، اسے تصحیح نیت کہا جاتا ہے، خاص مقصد نہیں،... 

پھر مفتی صاحب نے ہمیں بتایا کہ آپ لوگ ارادہ کریں کہ ہم اللہ کے احکام اور اس کے رسول ﷺ کے طریقے، بصیرت کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی زبان میں سیکھیں گے . 

مفتی اسعد اللہ صاحب چونکہ سیتامڑھی (میرا وطن) اور مظفر پور ( حضرت الاستاذ مولانا نور عالم خلیل الامینی صاحب نوّر اللہ مرقدہ کا وطن) کے محل وقوع سے واقف تھے کہ دونوں آس پاس کے ضلعے ہیں، اور سیتامڑھی، مظفرپور سے ہی بنا ہوا ایک ضلع ہے اس لیے وہ کبھی کبھار حضرت الاستاذ مولانا نور عالم خلیل الامینی صاحب ؒ کے گاؤں اور اپنے ایک دوست و ساتھی( مفتی ہارون صاحب) کے گاؤں کٹائی کا بھی تذکرہ کرتے،مجھے وہ تنُّو بہاری کے نام سے پکارتے اور کہتے بہاریوں میں دم ہوتا ہے، پھر وہ حضرت الاستاذ مولانا نور عالم خلیل الامینی صاحب اور مفتی ظفیر الدین صاحب رحمھما اللہ کا تذکرہ کرتے اور ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے، دونوں حضرات کے جہد اور کارنامے بیان کرتے، میں کچھ سمجھ پاتا اور کچھ پر یونہی گردن ہلا دیتا

سال اول میں باضابطہ حضرت الاستاذ کی تالیف مفتاح العربية میں نے مفتی عمران اللہ صاحب دامت برکاتہم سے پڑھی، اللہ مفتی صاحب کو خوب سے خوب جزائے خیر دے کہ انہوں نے خوب خوب پڑھایا، بلکہ مجھے اضافی طور پر بعد کے دنوں میں مفتاح العربية سے متعلق ایک خصوصی کام دیا کہ جتنے نئے الفاظ اس کتاب میں آئے ہیں سب کو لکھو؛ چاہے مولانا نور عالم صاحب نے انہیں فرہنگ میں لکھا ہو یا نہ لکھا ہو ( ہمارے دارالعلوم دیوبند میں داخلے(2000) سے تین چار سال پہلے(1997 - 1998)ہی یہ کتاب منظر عام پر آئی تھی، اور زبردست مقبولیت حاصل کر رہی تھی؛ اس لیے کچھ نہ کچھ تصحیح کتابت وغیرہ ہوتی ہی رہتی تھی،) اور ہر نئے اسم کی جمع بھی ساتھ میں ہونا چاہیے،حضرت مفتی عمران اللہ صاحب کی توجہ سے، مفتاح العربية سے میرا اس طرح بھی تعلق رہا کہ میں حضرت مفتی صاحب دامت برکاتہم سے عربی تحریری مشق لیا کرتا تھا، مفتی صاحب مجھے اپنے طور پر ایک صفحہ لکھ کر دیتے اور ساتھ میں یہ بھی ارشاد فرماتے کہ مفتاح العربية سے دیکھ کر خود بھی نقل و مشق کیا کرو، مفتاح العربية کتاب سے قربت تھی، مگر صاحب کتاب سے ملاقات تک کی ہمت نہیں تھی، بس اتنا سوچ کر ہی خوش ہو جاتا تھا کہ وہ ہمارے علاقے کے ہیں،

 دار العلوم دیوبند میں نصاب تعلیم کی خصوصیت یہ ہے کہ ابتدا ہی سے عربی زبان و ادب کے حوالے سے متواتر تین سالوں تک سات کتابوں ( (1)مفتاح العربية 1 ، (2) مفتاح العربية 2 ،(3) القراءة الواضحة 1، (4) القراءة الواضحة 2 ، (5) القراءة الواضحة 3، (6) نفحة الأدب، (6) نفحة العرب) کے ذریعے اتنی شاندار مشقیں کرا دی جاتی ہیں کہ آگے اگر ہلکی پھلکی سی بھی مشق جاری رکھی جائے تو الگ سے کسی خاص محنت کی ضرورت نہیں پڑے گی، ادب کا تذکرہ آئے اور مولانا نور عالم خلیل الامینی اور ان کے استاذ مولانا وحید الزماں کیرانوی (رحمہما اللہ تعالیٰ) کا تذکرہ نہ ہو ایسا بہت ہی کم ہوتا تھا اس لیے ان ابتدائی تین سالوں میں بھی حضرت الاستاذ مولانا نور عالم خلیل الامینی کا تذکرہ اساتذہ کی زبانی خوب سننے کو ملا

عربی چہارم میں تمرین عربی کی باضابطہ کوئی کتاب نصاب میں داخل نہیں تھی، مگر بعض طلبہ کو دیکھا کہ وہ خارج اوقات میں، علیا کے کسی طالب علم یا صف عربی کی خارجی کلاس سے استفادہ کر رہے ہیں، مجھے بھی شوق ہوا تو مفتی قمر نسیم صاحب پٹنوی، جو اس وقت تخصص فی الادب میں تھے، سے درخواست کی کہ آپ مجھے کچھ عربی سکھا دیں، انہوں نے مجھے کچھ عبارتیں وغیرہ پڑھنے کو کہا اور امتحان سالانہ کے نمبرات وغیرہ معلوم کیے اور دو پہر میں چھٹی کے ایک گھنٹے بعد پڑھانے کی ہامی بھرلی اور پھر المختارات ( جو تکمیل ادب میں پڑھائی جاتی ہے،) سے مشقیں کرائی، چونکہ وہ اس وقت تخصص فی الادب میں تھے اور اس زمانے میں تخصص فی الادب کا مطلب تھا، مکمل طور پر اپنے چوبیس کے چوبیس گھنٹے حضرت الاستاذ کے سامنے خود سپردگی؛ اس لیے کہ نثر جدید نثر قدیم، نئے اخبارات، پرانی تالیفات، نظم و نثر، اردو عربی تعریب ، عربی اردو تأرید سب کچھ حضرت الاستاذ سے متعلق تھیں،تخصص فی الأدب کی کل کائنات حضرت الاستاذ کے ارد گرد ہی گھومتی تھی،اس لیے اس وقت زبان و بیان کے حوالے سےحضرت الاستاذ کی ہدایات قمر نسیم بھائی کو تقریباً ازبر تھیں، بات بات پر وہ حضرت الاستاذ کے حوالے دیتے، ان کے پاس پڑھتے ہوئے بھی حضرت الاستاذ کی شخصیت سے بالواسطہ مسحور ہونے لگا تھا، 

لیکن یہ سلسلہ دیر پا ثابت نہیں ہوا، اس لیے کہ قمر نسیم بھائی اپنی کثیر تعلیمی اور دعوتی مشغولی کی وجہ سے اسباق کل پر موقوف کر دیتے تھے، کبھی میں شیخ الاسلام منزل سے رواق خالد سے متصل دار جدید میں قمر نسیم بھائی کے کمرے پر پہنچتا تو ان کے کمرے پر پڑا ہوا تالا منھ چڑا رہاہوتا،...بالآخر میں نے خود سے ہی چھٹی کر لی، اور اس سال اپنے طور پر دارالعلوم ندوۃ العلماء سے نکلنے والے رسالے " الرائد" سے مشق و تمرين کرنے لگا،

عربی پنجم میں سال کے آغاز پر بھائی عارف امروہہ کے ہمراہ عبدالرحمان بھائی پٹنوی سے رابطہ کیا، اس لیے کہ وہ بھی اس سال تخصص فی الادب میں تھے، یہ سوچ کر کہ پتہ نہیں تکمیل ادب تک ہمارا پہنچنا ہو یا نہ ہو حضرت مولانا نور عالم خلیل الامینی صاحب دامت برکاتہم سے استفادہ کا موقع ملے نہ ملے؛ اس لیے ان کے خصوصی شاگردوں سے استفادہ کو غنیمت جانا جائے، اس لیے کہ حضرت الاستاذ کی تربیت کا جادو اور ان کا کمال تھا کہ جو طالب علم بھی تخصص فی الادب میں ہوتا تھا اس کی زندگی میں زبان و بیان میں شائستگی و سلیقہ مندی جھلکنے لگتی تھی....

عبد الرحمان بھائی کے پاس ہم نے اسالیب الانشاء کی تمرین شروع کی، چونکہ عبد الرحمان بھائی کافی خوش مزاج اور ملنسار تھے اس لیے کچھ اور طلبہ بھی آنے لگے،... لیکن پتہ نہیں کیا ہوا کہ میں اور عارف بھائی بہت دنوں تک اس سلسلے کو باقی نہ رکھ سکے، اور یہ سوچ کر تسلی کر لی کہ اس سال عربی ادب کی کتاب المقامات الحریریة تو پڑھ ہی رہے ہیں، اس لیے الگ سے محنت نہ بھی کی جائے تو کافی ہے. 

عربی ششم کے سال میں دیوان متنبی ترتیب اولی میں حضرت مولانا عبدالخالق سنبھلی صاحب دامت برکاتہم سے پڑھنے کا شرف حاصل ہوا، گرچہ حضرت الاستاذ مولانا نور عالم خلیل الامینی صاحب کی اس حوالے سے کافی شہرت تھی، اس لیے کہ وہ باضابطہ دو ہی گھنٹے دارالعلوم کے احاطے میں پڑھاتے تھے، ایک دیوان متنبی عربی ششم ترتیب ثانیہ میں اور دوسرا مختارات تکمیل ادب میں. حضرت الاستاذ مولانا نور عالم خلیل الامینی صاحب کی دیوان متنبی کے سبق کا کافی چرچا رہتا تھا، یہاں تک کہ بعض طلبہ سے میں نے اپنے کانوں سے سنا کہ ترتیب بندی میں میرا نام ششم ثانیہ میں آ گیا ہے اب مجھے فراغت کے بعد ادب پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے!

ششم اولی میں حضرت مولانا عبدالخالق سنبھلی سے پڑھتے ہوئے میں ان کی مسحور کن شخصیت میں ایسا کھویا کہ پھر کسی کمی کا احساس باقی نہیں رہا، ان کے پڑھانے کا عجب البیلا سا انداز تھا،وہ بہت زیادہ سختی نہیں کرتے مگر ان کی نرمی ہی طلبہ کو طبیعت کو نرم رکھتی، ان کے موقع محل کی مناسبت سے ظریفانہ جملے، طلبہ کی کسلمندی کو کافور کرنے کے لیے کافی ہوتے، بہت دھیمی آواز و لہجے میں عربی اور اردو ادب سے متعلق سنائے جانے والے واقعات درس گاہ کو قہقہہ زار کردیتے تھے، ان کے جانے کے بعد بھی درس گاہ میں ان کے انداز کی نقل کی کوشش ہوتی رہتی.... عروض و اوزان کی رعایت کے ساتھ وہ اشعار پڑھتے اور پڑھنے کو کہتے تو بہت مزہ آتا، چونکہ شعر و شاعری سے مجھے پہلے سے دلچسپی تھی اس لیے عبارت خوانی کا خوب لطف اٹھاتا، یہاں تک کہ دوم سوم کے بعد میں درس گاہ میں عبارت بہت کم کبھی کبھار پڑھا کرتا تھا، مگر حضرت مولانا عبدالخالق سنبھلی کے پر کشش انداز نے متنبی کی عبارت پھر سے پڑھنے کا شوق جگا دیا اور اس سال خوب عبارت پڑھی حتی کہ اخیر سال میں جب امتحان سر پر ہوتا ہے،اور طلبہ عبارت خوانی وغیرہ سے کنارہ کش ہونے لگتے ہیں، مسلسل کئی کئی دنوں تک میں نے عروضی انداز میں عبارت پڑھی. اس سال دیوان حماسہ باب الادب اور دیوان متنبی پڑھنے میں مزہ ہی آ گیا... 
 

Comments

Post a Comment