Molana Noor Alam Khalil Amini kuch yaden

ان کے پاکیزہ تصور سے جو سرشار کرے  

حضرت الاستاذ مولانا نور عالم خلیل الامیی ؒ 

سے وابستہ کچھ یادیں 


تنویر خالد قاسمی


اشرف العلوم کنہواں، سیتامڑھی میں عربی اول میں دو چار تعارفی دنوں کے بعد جب پہلی مرتبہ عربی زبان سیکھنے کے لیے پہلی کتاب قصص النبیین کے اسباق شروع ہوئے، تو حضرت مولانا نسیم صاحب دامت برکاتہم ناظم تعلیمات الجامعہ العربیۃ اشرف العلوم کنہواں کی زبان مبارک سے بارہا، ایک نام سننے کو ملتا تھا، " مولانا نور عالم صاحب" ، " مولانا نور عالم صاحب".....
مولانا ہمیں ایسے ڈانٹتے تھے، ہم مولانا کی ڈانٹ سے بچنے کے لیے یہ یہ کرتے تھے، عام طور سے جو کچھ طالب علمانہ شرارتیں ہوتی ہیں وہ سب بھی وہ بڑی صاف گوئی سے بیان کر دیتے تھے، مولانا نسیم صاحب جب بھی حضرت الاستاذ نور عالم خلیل الامینی کا تذکرہ کرتے، بہت مزے سے کرتے ایسا محسوس ہوتا جیسے وہ اپنی زبان روکنا چاہ رہے ہیں اور محبت و جذبات کا طلاطم ہے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے، بعد کے زمانے میں بھی جب میں دار العلوم سے فراغت کے بعد ان سے ملتا ہوں تو ہم دونوں کے مابین استاد شاگرد کا تعلق ہے؛ مگر مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مولانا نسیم صاحب مجھے اپنا نہیں، بلکہ حضرت مولانا نور عالم خلیل الامینی ؒ کا شاگرد سمجھتے ہوئے مجھ سے مولانا نور عالم کی نسبت کے شایان شان برتاؤ کرنے کی کوشش کرتے ہیں،
لأبقى يماكٌ في حشاي صبابةً
إلى كل تركي النجار جليبٖ
آج بھی ملاقاتوں میں وہ عربی و اردو زبان کے الفاظ و معانی کی تحقیق کے لیے بھی مجھ سے مشورہ لینے میں گریز نہیں کرتے ہیں، مولانا نسیم صاحب کو حضرت الاستاذ نور عالم صاحب کی نسبت کا ایسا پاس و لحاظ ہے کہ جب اشرف العلوم کنہواں میں اجلاس صد سالہ کے موقع پر کچھ تدریسی و تصنیفی افراد کی ضرورت پڑی تو انہوں نے مدرسے کی انتظامیہ کو میرا نام بھی پیش کیا جب کہ میں باضابطہ نہ تو تدریس سے منسلک تھا نہ تصنیف سے، اور پھر مدرسے میں حاضری ہوئی تو مولانا نسیم صاحب کے مشورے سے پنجم عربی تک کے طلبہ کی تمرین وغیرہ میرے ذمے کی گئی، اور مولانا نسیم صاحب اس وقت" تاریخ اشرف العلوم کنہواں" لکھ رہے تھے، اس حوالے سے بھی وہ وقتاً فوقتاً مجھے اپنے پاس بلاتے اور شروع سے آخر تک لکھے ہوئے مضامین دکھاتے اور مکمل آزادی دیتے کہ الفاظ کی تراش خراش جو بھی مناسب سمجھیں تبدیل کر سکتے ہیں، حضرت مولانا نور عالم خلیل الامینی صاحب فون کر کے بتایا کہ تاریخ اشرف العلوم کی ترتیب و تصنیف میں مولانا تنویر خالد سیتامڑھی بھی ساتھ ہیں. ان کی شفقت و محبت سے میں اتنا جری ہو چکا تھا کہ بہت سی جگہوں پر معنوی طور پر بھی میں نے زبردستی کے مشورے دیے، کبھی قبول کر لیے گئے کبھی درست وجوہات بتا کر قبول نہیں کیے گئے، پھر صد سالہ کے بعد سالانہ امتحان میں ان ہی کی تحریک پر بہ طور ممتحن بھی اشرف العلوم کنہواں میں حاضری ہوتی رہتی ہے.
یقیناً میں اس لائق نہیں تھا، یہ تو مولانا نسیم صاحب کی حد درجہ شفقت و محبت تھی، اور مولانا نور عالم خلیل الامینی ؒ کی خصوصی شاگردانہ نسبت کا کمال تھا، مولانا نسیم صاحب نے واقعی حضرت الاستاذ نور عالم خلیل الامینی کی نسبت کا ایسا خیال رکھا کہ کیا بتاؤں؟ رجب و شعبان میں طلبہ کو چھٹیوں میں جماعت میں نکلنے کے لیے مدرسے میں تشکیلی جماعت کے ساتھ احقر کی بھی حاضری ہوتی تو، مولانا نسیم صاحب خود طلبہ کی یہ کہتے ہوئے تشکیل کرتے کہ ارے آپ لوگ مولانا کے ساتھ جماعت میں جائیں گے تو عربی زبان و ادب کے حوالے سے بھی خوب فائدہ اٹھا سکتے ہیں...... ان کے مضامین "الداعی" میں شائع ہوتے ہیں....
کہاں میں اور کہاں یہ نکہت گل
نسیم صبح تیری مہربانی
خیر بہت آگے نکل آیا، لیکن کوئی بات نہیں، میں کوئی منجھا ہوا لکھاڑی نہیں ہوں کہ، ایک ایک پیرا گراف ناپ تول کر لکھوں، بس حضرت الاستاذ کے تعلق سے کچھ بکھری ہوئی یادیں ہیں انھیں سمیٹنے کی کوشش کر رہا ہوں، میری اس تحریر کو تحریر نہ سمجھیں، بس خود سے ہم کلامی ہے جو دوسروں کو سمجھ میں آجائے ضروری تو نہیں،
ان کے پاکیزہ تصور سے جو سرشار کرے
وہ مئے ناب بری ہے کہ بھلی ہے یارو
مولانا نسیم صاحب کچھ سالوں قبل ہی دار العلوم دیوبند سے فضیلت اور اس کے بعد تکمیل ادب سے فراغت حاصل کر کے لوٹے تھے، اس لیے خاص طور سے عربی زبان ادب کے حوالے سے کافی جوش و خروش کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ چاہتے تھے کہ حضرت مولانا نور عالم خلیل الامینی صاحب سے جو کچھ سیکھا ہے، وہ سب اپنے طلبہ کو سمجھا دیں، چنانچہ طلبہ کی ذہنی سطح کے مطابق وہ ان تمام چیزوں کا مکلف بناتے جو حضرت مولانا نور عالم خلیل الامینی صاحب کی جانب سے دار العلوم دیوبند میں زیر درس طلبہ کو ہدایت دی جاتی تھیں، اور جن پر ہم نے مولانا نور عالم خلیل الامینی صاحب کے سامنے زانوئے تلمذ طے کرتے ہوئے عمل کیا، مثلاً :
روزانہ،ایک ایک صفحہ اردو اور عربی نقل لکھ کر لانا،
روزانہ ڈائری لکھنا
کثرت سے لغت بینی کرنا
نقل لکھتے وقت، صرف یہ نہ دیکھنا کہ کیا لکھا ہوا ہے، بل کہ اس بات پر دھیان دینا کہ کیسے لکھا ہوا ہے
وغیرہ وغیرہ......
مولانا نسیم صاحب کے عربی اول میں ہی بات بات پر حضرت مولانا نور عالم خلیل الامینی کے حوالے دینے سے عربی زبان و ادب کے تعلق سے ظاہری صورت سے ماورا ایک مبہم سی تصویر میرے ذہن میں مولانا نور عالم کی ابھرنے لگی تھی. اردو زبان سے گھریلو ماحول کی وجہ سے حفظ کے زمانے سے ہی گہرا سا تعلق ہوگیا تھا، اشرف العلوم میں آنے سے پہلے ہی قدیم و جدید جاسوسی، اسلامی، تاریخی، مزاحیہ، بلکہ رومانوی ناول وغیرہ پڑھنے کا تجربہ ہو چکا تھا، سال اعدادیہ میں جب کچھ فارسی کی شد بد ہوئی اور فارسی صرف و نحو ( حسن اتفاق کے فارسی صرف و نحو کے استاذ حضرت مولانا نسیم صاحب ہی تھے، جو مولانا نور عالم خلیل الامینی صاحب کی طرح ہی عامۃً لفظ کے ماخذ و اشتقاق کی بھی ضرور رہنمائی کرتے تھے) سے واسطہ پڑا اور کچھ سمجھ میں آنے لگا تو اردو پڑھنے میں پھر اور ہی مزہ آنے لگا، پھر عربی اول میں تھوڑی بہت عربی پڑھی تو لطف دو آتشہ ہوگیا، اور جی میں یہ ٹھان لیا کہ مولانا نسیم صاحب کے پاس عربی خوب اچھے سے پڑھنا ہے، مگر میری اس خواہش کی نیّا کو ایک زبردست موج نے ٹکر ماری اور عربی اول میں ہی بہار مدرسہ بورڈ کے امتحان میں آزادانہ شرکت کی وجہ سے اشرف العلوم کنہواں سے ششماہی سے قبل ہی 21 دیگر طلبہ کے ساتھ میرا بھی اخراج ہو گیا. اندر سے طبیعت بہت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی، والد صاحب حفظ کے زمانے میں ہی اللہ کو پیارے ہو چکے تھے، اس لیے مجھ سے زیادہ غم مری والدہ کو تھا، والد صاحب رحمہ اللہ کے بعد مدرسے سے اسکولی تعلیم، پھر مدرسے کی جانب رخ کرنا اور پھر مدرسے سے نکال دیا جانا، اچھا خاصا وقت ضائع ہو رہا تھا، اس لیے رنج و غم میں مبتلا ہونا یقینی تھا.
اللہ بہتر بدلہ دے میرے چھوٹے ابا ضیاء الاسلام صاحب کو کہ انہوں نے اس غم کی کیفیت سے نکالنے کے لیے جامعہ قاسمیہ بالاساتھ جانے کا حکم دیا،. حکم ہی نہیں بلکہ ساتھ میں لے کر گئے،بانی مدرسہ حضرت مولانا عبد الحنان صاحب قاسمی کے چھوٹے بھائی، سکریٹری مدرسہ حاجی ابو الکلام صاحب سے اچھے تعلقات تھے، اور سکریٹری صاحب اور میرے چھوٹے ابا دونوں ہم زلف بھی تھے اس لیے ششماہی کے بعد بآسانی میرا داخلہ بالاساتھ میں ہو گیا.
بالاساتھ میں رہتے ہوئے وہاں کے اپنے خاص ماحول کی وجہ سے مولانا نور عالم خلیل الامینی صاحب کی گونج کچھ کم سنائی دیتی تھی، لیکن خاموشی وہاں بھی نہیں تھی، ایک استاد ( غالباً حضرت مولانا عبد الصمد صاحب رائپوری) جن کے پاس ہم منہاج العربیۃ پڑھتے تھے، وہ کبھی کبھار مولانا کا تذکرہ کرتے رہتے تھے، چونکہ حضرت مولانا نور عالم خلیل الامینی صاحب کا گاؤں بیشی، بالاساتھ سے بہت زیادہ دور نہیں ہے اس لیے بھی کبھی کبھار مولانا کا تذکرہ آ ہی جاتا تھا.
بالاساتھ میں سال کے آخر میں دیگر مدارس کی طرح طلبہ انجمن کا اختتامی پروگرام کرتے ہیں, البتہ مدرسے کی انتظامیہ بھی مکمل تعاون کرتی ہے، امتیازی و تشجیعی انعامات کا انتظام بھی مدرسے کی جانب سے کیا جاتا ہے، میں جس سال وہاں عربی اول میں تھا اس سال اختتامی پروگرام خصوصی طور پر ترتیب دیا گیا تھا، اس لیے کہ بانی محترم حضرت مولانا عبد الحنان صاحب رحمہ اللہ کے بڑے صاحبزادے قاری حفظ الرحمان صاحب ماٹلی والا گجرات سے سند فضیلت لے کر تشریف لا رہے تھے، ان کے استقبال کی تیاریاں زور و شور سے ہو رہی تھیں، انعامات کے بھی انبار لگے ہوئے تھے، خاص طور پر کتابیں وغیرہ طلبہ کو انعامات میں دینے کے لیے منگوائی گئی تھیں، ایک ساتھی جو اساتذہ کے ساتھ مل کر انعامات کی ترتیب بندی وغیرہ میں شریک تھے، نے مجھے ان کتابوں میں سے ایک کتاب لا کر دی، جس کا نام، حرف شیریں تھا، اس زمانے میں نام بڑا اچھا سا لگا، میں سمجھا کہ شاید کہانی وغیرہ کی کتاب ہوگی، لیکن چھٹی کے ماحول میں عدم دلچسپی کی وجہ سے کتاب کھولنے کے بعد کچھ سمجھ میں آیا، کچھ نہیں، البتہ حضرت مولانا نور عالم خلیل الامینی صاحب کی پہلی تصنیف دیکھ کر عقیدت و محبت میں اضافہ ضرور ہوا
https://www.jamiululoom.org/.../molana-noor-alam-khalil...


ke
Comment
Share
تنویر خالد قاسمی



Comments

  1. This comment has been removed by the author.

    ReplyDelete
  2. مولانا کی شخصیت چونکہ آپ کی شنیدہ نہیں؛ بل کہ دیدہ اور برتی ہوئی ہے ، ان کے علم وفکر اور زبان وادب سے آپ نے بہ راہ راست روشنی حاصل کی ہے ؛ اس لیے میں شدت سے منتظر تھا کہ ایک تاثراتی مضمون آپ کی طرف سے معرضِ تحریر میں آنا چاہیے، الحمد للہ مضمون پڑھ کر دلی مسرت ہوئی؛ البتہ گزارش یہ ہے کہ تخصص فی الادب کے سال میں جو آپ نے مولانا کو دیکھا ، برتا اور استفادہ کیا اس زمانے کے احوال ومشاہدات کو ضرور قلمبند کریں۔ جزاک اللہ خیرا

    ReplyDelete
  3. جی إن شاء الله ضرور آپ کے حکم کی تعمیل کی جائے گی

    ReplyDelete

Post a Comment