Khatti Mithi yaden



 کھٹی میٹھی یادیں

تنویر خالد قاسمی


          اشرف العلوم کنہواں سے اخراج کے بعد جامعہ قاسمیہ بالاساتھ میں داخلہ تو لے لیا مگر پتہ نہیں کیوں طبیعت کا اچاٹ پن ختم نہیں ہوا، مدارس میں آپسی مسابقت اچھی چیز ہے، مگر یہ مسابقت بسا اوقات ایک دوسرے کو نیچا دکھانا، حقیر سمجھنا تک پہنچ جاتی ہے، اور یہ بیماری صرف انتظامیہ ہی نہیں بل کہ طلبہ تک میں سرایت کر جاتی ہے، اگر کسی مدرسے میں اچھی تعلیم ہوتی ہے، اس کی اچھی شہرت ہے، تو شہرت و خوبی کا  غرور انتظامیہ، اساتذہ، کارکنان اور طلبہ تک کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے، طلبہ تک دوسرے مدرسوں کو کچھ نہیں سمجھتے، مذاق اڑاتے ہیں، اور" ہم چوں ڈنگرے نیست" کی بیماری میں مبتلا رہتے ہیں، حضرت مولانا نور عالم صاحب رحمہ اللہ کو بارہا ہم نے دار العلوم میں یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ

 " یہاں کے اساتذہ، طلبہ ملازمین سب کے سب انتہائی مغرور ہیں یہ سمجھتے ہیں کہ ہم جیسا کوئی ہے نہیں."

جبکہ کسی بڑے یا مشہور ادارے سے کسی بھی طرح کا انتساب ہمیں اور زیادہ محتاط زندگی، بہتر رویہ اپنانے کا متقاضی ہوتا ہے، اس ادارے کی عظمت کا ہر وقت خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے، ہمیں ہر ہر قدم ناپ تول کر رکھنا ہوتا ہے کہ کہیں ہمارا کوئی عمل  ہمارے ادارے کی شہرت و عظمت کو داغ دار نہ کردے بڑا انتساب بڑی ذمہ داری کا داعی ہوتا ہے. 

          جامعہ قاسمیہ بالاساتھ میں میرا داخلہ ہوگیا، داخلہ کی پہلی شام بعد نماز مغرب عربی اول کے طلبہ کے ساتھ مطالعہ و تکرار میں شامل ہو گیا، نگرانی پر مامور  ایک استاد تشریف لائے انہوں نے مجھے نو وارد دیکھ کر نام وغیرہ پوچھا، داخلہ ہوگیا وغیرہ سوالات کرتے ہوئے پوچھا کہاں سے پڑھ کر آئے ہو؟ میں نے جواب دیا اشرف العلوم کنہواں. انہوں نے طنزیہ سے انداز میں کہا اچھا دیکھیں گے کہ کنہواں میں کیا پڑھایا جاتا ہے؟! پتہ نہیں مجھے محسوس ہوا یا.... کہ وہ کنہواں کا مذاق اڑا رہے ہیں، حالانکہ کنہواں سے میرا اخراج ہوا تھا، دوبارہ لوٹنے کی بھی کوئی امید نہیں تھی مگر پھر بھی ان کا جملہ مجھے صرف اشرف العلوم کنہواں ہی نہیں بل کہ اپنی ذات پر حملہ محسوس ہوا! اور میں نے بھی انہیں کی طرح تلخ لہجے میں جواب دیا، ہاں میں جانتا ہوں یہاں کیا پڑھایا جاتا ہے...... وہ استاد عربی اول کے سب سے مقتدر استاد تھے اہم اہم کتابیں انہیں سے متعلق تھیں، پھر آخر سال تک حضرت الاستاذ اور میری بک جھک جاری رہی شاید ان کے ساتھ گستاخی کا نتیجہ تھا کہ یہ سوچ کر ہی وہاں وقت گزاری کی کہ دوبارہ سے عربی اول پڑھنا ہے، اس لیے کہ یہاں کی پڑھائی ایسی ہی ہے، ذہن کے اس خناس نے وہاں کے  اچھے خاصے صلاحیت مند تجربہ کار اساتذہ سے مکمل استفادہ نہیں کرنے دیا.

Comments