My kolkata trip and Doraemon میرا کلکتہ کا سفر اور ڈوری مون

 


کلکتہ کا سفر اور ڈوری مون 

 ابھی کلکتہ کے سفر سے واپسی ہو رہی ہے ، تقریباً ہر سال رمضان سے کچھ پہلے یہاں کا تجارتی سفر کرتا ہوں، عطر، ٹوپی، جائے نماز ، دسترخوان اور رحل وغیرہ معمول کی چیزیں ہی " زکریا اسٹریٹ" اور " کولو ٹولہ " سے خریداری کرتا ہوں، عموماً پورے سال یہ سلسلہ بذریعہ فون ہی قائم رہتا ہے، البتہ سال میں ایک بار بازار میں نئی چیزوں کی آمد اور قیمتوں کے اتار چڑھاؤ کا جائزہ لینے کے لیے ذاتی طور پر کلکتہ آمد ہو جاتی ہے،

 زکریا اسٹریٹ اور کولو ٹولہ آس پاس کے علاقے ہیں جن میں یہ حد بندی کر پانا ناممکن ہے کہ کہاں تک زکریا اسٹریٹ ہے اور کہاں سے کولو ٹولہ شروع ہوتا ہے، مسلمان تاجروں کے لیے کے قیام و طعام کے اعتبار سے کافی مناسب و معقول علاقے ہیں، عام طور پر پچاس سے سو قدم کے فاصلے پر مسجدیں ہیں، خریداری کرتے ہوئے بھی آپ پانچوں وقت کی نمازیں، باجماعت پڑھ سکتے ہیں، باجماعت ہی نہیں بلکہ تکبیر اولی کے ساتھ پڑھ سکتے ہیں،

میں نے یہاں کے فنادق ( ہوٹلوں) میں ایک دو بار ہی قیام کیا ہے، لیکن ان رہائشی ہوٹلوں میں آنے جانے کا اچھا خاصہ موقع ملا ہے، اس لیے کہ آسام کے ایک ساتھی مولانا کبیر احمد قاسمی کریم گنج، جو ما شاء اللہ کپڑے کے بڑے تاجر ہیں، وہ اور میں اکثر تاریخ متعین کر کے ایک ساتھ ہی کلکتہ پہنچتے ہیں، وہ کافی تجربہ کار اور مخلص شخص ہیں کار آمد مشوروں سے نوازتے رہتے ہیں، حالانکہ ہم دونوں کی تجارت کا میدان الگ ہے لیکن دار العلوم دیوبند کے زمانۂ طالب علمی سے ہی ان سے کچھ ایسا ربط بنا کہ ابھی تک قائم ہے اللہ ہمارے حب فی اللہ کو باقی رکھے، آمین،

میں عامۃ اپنے خالو خالہ کے گھر ان کے بے حد اصرار پر ٹھہرتا ہوں، جن کا زکریا اسٹریٹ والے علاقے سے تقریباً دس کلو میٹر کے فاصلے پر مکان ہے اور قریب میں ہیں ٹرالی بیگ وغیرہ کا ان کا کارخانہ بھی ہے. ماشاءاللہ خالو کافی ملنسار دین دار شخصیت کے مالک ہیں، رشتہ کے خالو بھانجے والے فرق کے با وجود ان کا برتاؤ میرے ساتھ دوستوں والا ہوتا ہے، 

دو تین دنوں کے قیام کے دوران میرا معمول عام طور سے یہ ہوتا ہے کہ، صبح نکل کر پھر شام کو مغرب یا کبھی عشاء کے بعد ہی واپسی ہوتی ہے، شہروں میں عام طور پر دیر سے سونے کا نظام ہے اس سے مجھے بھی نبرد آزما ہونا پڑتا ہے، میں واپس آکر ان کے بچوں کے ساتھ دینیات وغیرہ کی کتابیں لےکر مشغول ہو جاتا ہوں،

ابھی اس سفر میں ان کا چھوٹا لڑکا محمد احمد ( بارك الله فيه و رزقه الله صحةً و عافيةً، و علماً نافعاً) جو تقریباً چھ سات سال کا ہے اور نورانی قاعدہ کا طالب علم ہے، کے ساتھ رات میں بیٹھنا اور کھیلنا وغیرہ ہوتا رہا، باتوں باتوں میں پتہ چلا کہ وہ تقریباً ٣ سالوں سے باقاعدہ قریب کی مسجد میں مغرب کے بعد دینی تعلیم کے لیے جا رہا ہے ، ابھی نورانی قاعدہ میں مرکب حروف کی مختلف شکلوں سے متعلق سبق ہے، میں نے کہا چلو نورانی قاعدہ نورانی قاعدہ کھیلتے ہیں، اس نے کتاب کھولی میں نے اس کے دائرۂ سبق میں رہتے ہوئے یہاں وہاں سے پوچھ تاچھ شروع کی تو اندازہ ہوا کہ مرکب حروف شناشی میں کمزوری ہے، خالہ سے معلوم کیا تو پتہ چلا کہ نورانی قاعدہ بہت دنوں سے پڑھ رہا ہے،. میں نے پوچھا آپ گھر پر پڑھاتی ہیں، تو جواب نفی میں ملا، انہیں ترغیب دی کہ مدرسہ جانے سے پہلے تھوڑا آپ بھی بچے پر محنت کر لیا کریں،. اور واپسی کے بعد بھی تھوڑی خیر خبر لے لیا کریں،. اور پھر میں نے وائٹ بورڈ وغیرہ پر تین دنوں میں کھیلتے کھیلتے تھوڑی محنت کی کوشش کی، سبق سے آگے بل کہ پوری نورانی قاعدہ میں یہاں وہاں سے مرکب حروف کی شناخت کا کھیل کھیلتے رہے اور الحمد للہ عزیزم محمد کی اس کھیل میں جیت ہونے لگی....

ایک مرتبہ جب محمد بھائی میرے ساتھ کھیلتے کھیلتے تھک گئے تو ٹی وی چلا کر اس کے سامنے بیٹھ گئے، اور کارٹون وغیرہ دیکھنے لگے، میں بھی ان کے ساتھ بیٹھ گیا کارٹون میں ایک کہانی چل رہی تھی جس کے کردار تھے، جیان، شوزوکا ، نوبتا، سونیو وغیرہ، چھوٹی چھوٹی کہانیاں تھیں، جن میں اصل روبوٹک مخلوق ڈوری مون کے غیر معمولی تعاون کو دکھایا جاتا ہے جو ہر حالت میں نوبتا کی مدد کے لیے تیار رہتا ہے، 

ایک خاص چیز جو مجھے نظر آئی وہ یہ کہ ہر کہانی میں لڑکے اور لڑکی کی دوستی ضرور دکھائی جاتی ہے، مسلسل نوبتا اور اس کے مقابل سونیو میں یہ تقابل جاری رہتا ہے کہ شوزوکا ( جو ایک لڑکی ہے) کو کون زیادہ اپنی طرف مائل کر سکتا ہے، اور دوسرے کو شوزوکا کے مائل کرنے سے روک سکتا ہے، اس کے لیے وہ دونوں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے سے بھی نہیں رکتے، مجھے حیرت ہوئی کہ کچھ غیر معمولی دلچسپی کی چیزیں دکھانے کے لیے ڈوری مون کے الٹے سیدھے اوزار (گیجٹس) ہی کافی تھے، اور تقابل کے لیے نوبتا اور اس کے مقابل جیان اور سونیو کے جھگڑے اور رگڑے ہی کافی تھے، پھر بچوں کے ذہنوں پر جنس مخالف کی کشش کے منتقل کرنے کا کیا مطلب، خاص طور سے وہ لوگ جو لڑکے اور لڑکیوں کے اختلاط کو برابری و مساوات کہتے ہیں، کیسے وہ دیکھنا برداشت کر لیتے ہیں کہ ان کے بچے اس مشہور کارٹون سے عدم مساوات سیکھیں، کہ مقابلے کی چیز جس کے حصول کے لیے کوشش کی جائے وہ لڑکی کی دوستی ہے، دوسرے لڑکے کے ساتھ لڑکی کی دل چسپی دیکھ کر دل میں جلن پیدا ہو، اسی طرح ڈوری مون کے ہی ایک منظر میں بچے کہیں گھومنے جاتے ہیں، سمندر یا کسی جھیل پر نہاتے ہیں، اس منظر میں بھی لڑکی کے خاص جسمانی ساخت کی نمائش کی جاتی ہے جبکہ بہ ظاہر اس لڑکی کی دوسرے مناظر میں اتنی عمر نہیں دکھائی جاتی ہے، یہ سب صرف آدھے پون گھنٹے کے منظر نامے میں دکھایا گیا، پتہ نہیں اور کیا کیا چیزیں آتی ہوں، جو مجھے نظر آیا اس نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ یہ کارٹون فلمیں بچوں کو دکھائی جائیں یا نہیں،

ممکن ہے کچھ بانظر لوگ کہیں کہ یہ نظر اور نظریہ کی گندگی ہے، لیکن یہ یاد رکھنا انتہائی ضروری ہے کہ بچے جو کچھ ویڈیوز کی شکل میں دیکھتے ہیں، اپنے آپ کو اس منظر (سین) کا حصہ سمجھتے ہیں، اور اپنے ارد گرد اس طرح کی کہانی کو تلاش کرتے ہیں اور پھر اپنے حساب سے بہ شمول اپنے اس کہانی کے کرداروں کو متعین کرنے کی کوشش کرنے لگتے ہیں اور آہستہ آہستہ فطری حیا ختم ہونے لگتی ہے، میرے خالہ زاد کے بارے میں میری خالہ نے بتایا کہ پہلے جب شیزوکا کی تصویر کہانی میں آتی تھی تو محمد آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیتا تھا یا اپنی آنکھیں بند کر لیتا تھا. لیکن اب ایسا نہیں کرتا ہے مطلب یہ ہے کہ اب اس کے لیے ایک لڑکے اور لڑکی کا میل جول معمولی سی بات بن گئی ، ہے


Comments

Post a Comment