ناپاک شادی ‏Napak Shadi

*ناپاک شادی* 



عالیہ:نمرہ تم نے کچھ سنا؟آج کل کالج میں کیا چرچے ہیں؟ 
نمرہ :نہیں تو کوئی خاص خبر ہے کیا؟

عالیہ:تم تو کتاب کی کیڑا ہو، کتاب سے فرصت ملے تب تو جانو کہ اسکول کالج میں کیا چل رہا ہے. گھر سے بستہ اٹھاے ہوے سیدھے کالج آتی ہو اور پھر اسی طرح واپس چلی جاتی ہو. لے دے کے تو بس تمہاری دو ہی سہیلیاں بھی ہیں. فاطمہ اور حمیرا، اب اسکول میں اتنا بڑا واقعہ ہو گیا اور تم کو خبر بھی نہیں؟

نمرہ:واللہ مجھے کچھ پتہ نہیں، اب بوجھنی نہ بجھاو، کوئی خاص بات ہوتو بتاو، دنیا جہاں کی خبریں تو بس تمہارے پاس ہی ہوتی ہیں، پوری بی بی سی لندن ہو، بی بی سی لندن... یقین جانو مجھے دنیا جہاں کی خبریں تم سے ہی ملتی ہیں. کیا کوئی خاص بات ہے.

عالیہ: یہ اچھی بات ہے میں تو بی بی سی لندن ہوں اور تم اتنی بے خبر کہ تمہیں اپنے آس پاس کا بھی پتہ نہیں،اتنی بے خبری بھی تو اچھی نہیں ہے. اچھا سچ سچ بتاو غبرہ نشیط کے بارے میں تم کو کوئی خبر ہے؟

نمرہ:ہاں کیوں نہیں، اس دن زارا مس کہہ رہی تھیں کہ غبرہ اب کالج نہیں آے گی، اس کی شادی ہوگئی. مجھے تھوڑی حیرت ہوئی اب تو امتحان میں صرف تین ماہ ہی باقی تھے، غبرہ کے گھر والے اس کی شادی دو چار ماہ بعد بھی کر سکتے تھے. بے چاری کا گریجویشن بھی مکمل نہیں ہوا.

عالیہ:بس اتنا ہی، کس کے ساتھ شادی ہوئی اور کن حالات میں اس کی بھی کچھ خبر ہے.؟
نمرہ:مجھے اس کے علاوہ کوئی خبر نہیں ہے، میری سہیلیوں کا سرکل بھی بہت چھوٹا ہے. پلیز پوری بات بتاو..

عالیہ:نمرہ کی شادی ہوئی، وہ بھی سبزی بیچنے والے بودھ سماج کے ایک نوجوان امیش کے ساتھ.

نمرہ:لاحول ولا قوۃ الا باللہ، یہ تم کیا کہہ رہی ہو،مذاق نہ کرو، ایسا مذاق اچھا نہیں ہوتا.

عالیہ:تم کو اس خبر پر اتنی حیرت کیوں ہے. کیا تم غبرہ سے واقف نہیں ہو، کیسے کیسے فیشن ایبل کپڑے پہن کر آتی تھی، کتنا گہرا میک اپ کیے رہتی تھی، کیسے اٹھلا اٹھلا کر چلتی تھی، کالج کے ہر فالتو، آوارہ لڑکا اس کا دوست اور فرینڈ تھا. میں تو دیکھتی تھی کہ کالج بند ہونے کے بعد بھی گھنٹوں ادھر ادھر موج مستی کرتی تھی.

نمرہ :مجھے اس کے بارے میں زیادہ پتہ نہیں،بس میں یہ سمجھتی تھی کہ کسی آزاد خیال اور مالدار مسلم گھرانے سے اس کا تعلق ہے جس کا دین اور مذھب سے زیادہ تعلق نہیں ہے. نہ تو اس کے سر پر کبھی اسکارف رہا اور نہ ہی چہرے پر شرم و حیاکی کوئی لکیر. 
عالیہ:نمرہ کو امیش کے ساتھ بھاگے ہوے کئی ماہ ہوگئے. سنا ہے دو تین سال سے اس کا امیش کے ساتھ چکر تھا. جب گھر والوں کو معلوم ہوا تو انھوں نے دونوں کے ملنے جلنے پر پابندی لگانی شروع کی، مگر اب دونوں ایک دوسرے کے بغیر نہیں رہ سکتے تھے، آخر ایک دن دونوں گھر سے فرار ہوگئے. ، چار پانچ دن پہلے اس نے کورٹ میرج کر لیا، اس کے گھر والوں نے امیش پر اپنی بیٹی کے اغوا کا مقدمہ کر دیا تھا. مگر کل کورٹ میں غبرہ نے کہا کہ مجھے کسی نے اغوا نہیں کیا ہے، میں اپنی مرضی سے امیش کے ساتھ آئی ہوں، اب وہ میرا شوہر ہے.

نمرہ:تم کیا کہہ رہی ہو، میرا تو جیسے سر پھٹا جا رہا ہے، غبرہ نے ایسا قدم کیسے اٹھا لیا جس سے اس کے گھر، خاندان اور ملت کی بدنامی ہورہی ہے. کیا اسے رسوائی اور بے عزتی کا ڈر نہیں ہے؟

عالیہ:نمرہ اس سے آگے کی بات سنو، غبرہ نے اپنے باپ، دو بھائیوں اور مسلم جماعت کے چار ممبروں کے خلاف مقدمہ دائر کردیا ہے کہ یہ لوگ اسے دھمکی دے رہے ہیں، اسے ان لوگوں سے اپنی جان کا خطرہ ہے.

نمرہ: اللہ رحم کرے، یہ میں کیا کیا سن رہی ہوں، غبرہ ایک مسلم لڑکی ہوکر کیسے اتنا گر سکتی ہے. کیا اسے اپنے دین کی تعلیمات اور خاندانی روایات کا کوئی علم نہیں ہے؟ کیا اسے یہ علم نہیں تھا کہ شادی بیاہ کس کے ساتھ جائز اور حلال ہے اور کس کے ساتھ ناجائز اور سخت حرام، ایک مسلم لڑکی کسی غیر مسلم لڑکے کے ساتھ شادی کرے گی یہ تو میں سوچ بھی نہیں سکتی لگتا ہے اس کی مت ماری گئی ہے.ہوش و حواس میں کوئی کیسے اتنا گرا اور گندہ کام کر سکتا ہے؟

عالیہ: غبرہ کا گھر تو میرے محلے میں ہی ہے. اس کا گھر میرے گھر سے پانچ سات منٹ کے فاصلے پر ہے. دو تین ماہ سے پورے محلے کی زبان پر بس غبرہ کی ہی باتیں ہیں. ہر آدمی غبرہ کو برا بھلا کہہ رہا ہے. لیکن کیا نمرہ تم اس کا ذمہ دار صرف غبرہ کو سمجھتی ہو؟
نمرہ: اب شادی تو غبرہ نے کی ہے تو ذمہ دارتو وہی مانی جاے گی، اب وہ تمہارے محلے میں ہے تو تم اس کے بارے میں بہتر جانتی ہوگی.

عالیہ:غبرہ تو خیر ذمہ دار ہے ہی مگر میں سمجھتی ہوں کہ اس میں اسکے گھر والے بھی کم ذمہ دار نہیں ہیں. اب دیکھو جس بلڈنگ میں غبرہ رہتی ہے اس میں کوئی دوسرا مسلمان نہیں ہے، غبرہ کی امی ایک بار مجھ سے کہنے لگیں اپنے مسلمان لوگ بہت گندے رہتے ہیں اس لیے میں مسلمانوں کی بلڈنگ میں نہیں رہتی. میں نے جان بوجھ کر ایسی بلڈنگ میں فلیٹ لیا جس میں ایک بھی مسلمان نہیں. پھر غبرہ کا داخلہ بھی ایل ایم ٹی انگلش اسکول میں کروایا جہاں زیادہ تر بچے غیر مسلم ہیں.

نمرہ:کیا اس کے محلے میں مسلمانوں کا کوئی اسکول نہیں تھا، جو وہ غیروں کے اسکول میں پڑھنے گئی؟

عالیہ:غبرہ کی امی بہت ماڈرن ہیں ایک بار وہ مجھ سے کہنے لگیں میں المدینہ، العرفان یا کسی دوسرے مسلم انتظامیہ کے اسکول میں اپنی بیٹی کا داخلہ نہیں کرواوں گی مجھے اپنی بیٹی کو ملائن نہیں بنانا ہے، چھوٹی چھوٹی لڑکیاں اسکارف، دوپٹے اور پوری شلوار پہنے المدینہ، العرفان اور المودودی اسکول جاتی ہیں تو عجیب لگتا ہے، اتنی دینداری کی کیا ضرورت ہے؟ ، ارے نیا زمانہ ہے اب یہ پرانی چیزیں آوٹ ڈیٹیڈ ہیں، یہ سب چلنے والی نہیں ہیں میری بیٹی غبرہ تو پڑھ لکھ کر ماڈرن بنے گی ماڈرن، آزاد خیال، ایڈوانس.
نمرہ: پھر تو اب وہ بہت خوش ہوں گی، نمرہ تو ان کی امیدوں کے مطابق ہی لبرل اور ایڈوانس بنی ہے، ایک طرح سے ماں نے بیٹی کی خواہش پوری کر دی
عالیہ: نمرہ میں چند روز پہلے اپنی امی کے ساتھ غبرہ کے گھر گئی تھی، پورے گھر پر جیسے موت کا سناٹا ہے، اب وہ لوگ سماج میں کسی کو منہ دکھانے کے لائق نہیں رہے. ہم لوگ غبرہ کے پڑوس میں رہنے والی اپنی خالہ کے گھر بھی گئے تھے. خالہ کہنے لگیں:
"غبرہ کی بے راہ روی کی پوری ذمہ دار اس کی ماں ہے، باپ تو بے چارہ گلف میں ہے، ادھر ماں کی ساری دوستی غیر قوم کے لوگوں سے ہے. اس کے گھر کے تمام سامان کی حریداری پرتاب رکشے والا کرتا ہے. گھر کی جوان جوان لڑکیاں پرتاب کے رکشے پر جہاں چاہتی ہیں گھومتی ہیں. کرانے کا سارا سامان پردیپ کرانے والا پہنچاتا ہے. دونوں بیٹیوں کے سب فرینڈ بھی ہندو اور بودھ نوجوان ہیں، اب اگر اس طرح کے حالات میں کوئی لڑکی کسی غیر مسلم لڑکے کے ساتھ بھاگ جاے تو کیوں حیرت ہو.

نمرہ :تمہاری بات سے تو ایسا لگتا ہے کہ سب کیا دھرا غبرہ کی امی اور گھر والوں کا ہے، پھر اب انھیں افسوس کس بات کا ہے انھوں نے جو بویا اسے ہی تو کاٹا ہے. اب پریشان کیوں ہیں. امیش کو داماد سمجھ کر گھر میں جگہ دیں.

عالیہ: غبرہ کی امی آزاد رو تو تھیں مگر اتنی بھی نہیں کہ بیٹی دوسرے مذھب کے نوجوان سے شادی کرلے.اب سارے اعزا ورشتہ دار اسے برا بھلا کہہ رہے ہیں.

نمرہ: عالیہ ہمارا سماج دن بہ دن برا سے برا ہوتا جا رہا ہے. خاص طور سے مسلم نوجوان لڑکیاں، ہمیں اس کے لیے کچھ کرنا چاہیے.

عالیہ:ضرور، جو بن پڑے ضرور کرنا چاہیے، میری سمجھ میں لڑکیوں کی بے راہ روی کے سب سے بڑے ذمہ دار والدین ہیں. یہ شروع سے ہی لڑکیوں کی تعلیم وتربیت میں لا پرواہی برتتے ہیں، غیر مسلم لڑکوں سے ان کے ملنے جلنے اور فری ہونے پر کو پابندی نہیں لگاتے اور جب کوئی رسوا کن حادثہ ہوتا ہے تو سماج اور زمانے کو الزام دیتے ہیں.

نمرہ: ہمارے محلے میں تو کچھ کام شروع ہوا ہے. خاص طور سے غبرہ اور عریضہ کے حادثے کے بعد، عریضہ نے پچھلے سال ایک ہندو ڈاکٹر سے شادی کر لی تھی.نوجوان لڑکیوں کی کونسلنگ ہورہی ہے. انھیں اسلامی تعلیمات سے واقف کروایا جا رہا ہے. جماعت اسلامی اور جی آئی او نوجوان لڑکیوں کے لیے تربیتی کیمپ منعقد کر رہی ہیں. لڑکیوں کے لیے علیحدہ اسکول بھی قائم کرنے کی کوشش ہورہی ہے.
 
عالیہ:کل اسی سلسلے میں مغرب بعد میرے گھر الصالحات ویمن گروپ کا ایک پروگرام ہے، تم بھی آو ان شاء اللہ بات کریں.

نمرہ :ضرور، ان شاء اللہ، اس سے پہلے بھی میں الصالحات ویمن گروپ کے ایک پروگرام میں شریک ہوچکی ہوں. یہ لوگ بہت اچھا کام کرتے ہیں. چلو اب میں چلتی ہوں. 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.

عالیہ:وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

Comments

Post a Comment