KHUBAIB BIN ADI / ye ishq nhin asan 2 خبیب بن عدی / یہ عشق نہیں آساں ( 2 )



 یہ عشق نہیں آساں (2 ) 

حضرت خبیب بن عدی رضی اللہ عنہ

تنویر خالد قاسمی 
اکڈنڈی ، پریہار ، سیتامڑھی بہار ، الہند 

      ہر طرف سر ہی سر نظر آ رہے ہیں، پورا میدان کھچاکھچ بھرا ہوا ہے، تل دھرنے کی بھی جگہ نہیں ہے، مکہ کے باہر مقام تنعیم میں لوگوں کا جم غفیر ہے، کیا بوڑھا، کیا جوان، کیا مرد کیا عورت پورا مکہ ہی وہاں موجود ہے ۔
      ایسا لگ رہا ہے کہ احد کی ظاہری جیت کے بعد پھر کوئی جشن ہونے والا ہے، بدر کے بعد شاید یہ پہلا موقع ہے کہ اچھے خاصے سردار ایک جگہ اس خوشی کے موقع پر جمع ہیں، ورنہ بدر نے تو ان کی کمر ہی توڑ دی تھی، رقص و سرور کی ساری محفلیں ویران ہو چکی ہیں، شراب جو انھیں زندگی کی طرح محبوب تھی، ان کی ہر خوشی شراب سے دو بالا، اور ہر غم، شراب سے کافور ہو جاتا تھا، وہ بھی بدر کے غم کو غلط کرنے میں غلط ثابت ہو رہی تھی، تبلے کی تھاپ اور مغنیہ کے عشقیہ و رزمیہ اشعار انھیں تمام چیزوں سے بیگانہ کر دیتے تھے، مگر بدر میں سنے ہوئے اللہ اکبر کے نعروں کی گونج نے انھیں تمام لہو و لعب سے بے زار کر دیا تھا،جب سے بدر کے قلیب نامی کنوئیں نے مکہ کے جگر پاروں کو اپنا لقمہ بنایا تھا؛ مکہ کا ذرہ ذرہ ماتم زار نظر آ رہا تھا ۔
      بدر نے تو ان کی عظمت کی کتاب کا ورق ورق پارہ کر دیا تھا. صبا رفتار گھوڑے، آہنی زرہیں، مضبوط خود،  برق رفتار تیر، دھار دار تلواریں، محافظ ڈھالیں، خون آشام نیزے، کیا کچھ ان کے پاس نہیں تھا، تعداد میں بھی مسلمانوں سے تین گنا سے زیادہ،..... مگر میدان جنگ میں ایسا لگا کہ، طوفانی ہوا کا ایک بگولہ آیا اور قریش کے سارے خس و خاشاک کو اڑا کر لے گیا، بڑے بڑے جیالوں اور سورماؤں سے زندگی رشتہ توڑ چکی تھی، بڑے ہی کر و فر کے ساتھ نکلے تھے اور آپس میں عہد و پیمان کیا تھا کہ صرف ایک خدا کے ماننے والوں کو، ان کے خدا کے پاس پہنچا دیں گے مگر بدر کی شکست نے ان کے سرخ و سفید چہروں کو ایسا سیاہ کر دیا تھا کہ انھیں اپنا مستقبل بھی سیاہ دور تاریک راستوں پر نظر آ رہا تھا ۔
      احد میں ظاہری فتح کے باوجود بھی ان کے انتقام کی آگ سرد نہیں ہو رہی تھی ؛ عضل اور قارہ کے لوگوں نے دو مسلمان قیدی ان کے حوالے کیے تھے ، ایسا لگتا تھا کہ اہل مکہ ان دونوں سے بدر اور احد میں قتل کردیئے گئے اپنے تمام جیالوں کا بدلہ لیں گے، ایک مسلمان کو قتل کرنے کے بعد آج خبیب کے قتل سے اپنے سینوں کو ٹھنڈا کرنا چاہ رہے تھے، خبیب کو سامنے لایا گیا ، مگر  کیا یہ انسان ہے، کہ اس کا سولی پر چڑھایا جانا اور قتل ہونا یقینی ہے ، مگر اس کے چہرے پر خوف و ہراس کا ذرہ برابر بھی اثر نہیں، ارے یہ سولی کو کوئی کھیل یا ڈرامہ تو نہیں سمجھ رہا ہے؛ ذرا دیکھو تو یہ سولی کو ایسی چمکتی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے جیسے یہ موت کے بجائے، معشوق کے بالا خانے تک پہنچنے کا زینہ ہو....۔
      یہ یہ... اس وقت نماز پڑھ رہا ہے، عجب آدمی ہے! اس وقت تو لوگ اپنے قریبی عزیزوں کو ڈھونڈتے ہیں ، .... ہاں اس سے اس کی آخری خواہش پوچھی گئی تھی تو اس نے کہا کہ مجھے دو رکعت نماز پڑھنے کی مہلت چاہیے ، پھر تم جو چاہو کر لینا......
         اف فوہ.... یہ  نہیں دیکھا جا سکتا . کیسے اس قیدی کی بوٹی بوٹی کو چالیس بھیڑیا نما لوگ زخمی کر رہے ہیں، کوئی پیر میں ، نیزہ گھونپ رہا ہے ، تو کوئی بازو پر زخم لگا رہا ہے ، کوئی پشت پر حملہ آور ہے ، تو کوئی پیٹ پر کچوکے لگا رہا ہے ۔ یہ اپنے آپ کو کعبہ کا پڑوسی کہتے ہیں ۔  خود کو خدا کا خادم گردانتے ہیں ۔ کیا خدا کے بندے بلکہ اس کی کسی مخلوق کے ساتھ بھی ایسا برتاؤ کیا جاتا ہے... دیکھو دیکھو وہ بد بخت اس بے چارے مسلمان کو جان کنی کے عالم میں بھی گالی دے رہا ہے، اور بے چارہ مسلمان بے نیازی سے اس کی طرف متوجہ ہی نہیں ہو رہا ہے؛..... لیکن یہ کیا؟ کیا ہوا اس قیدی کو؟ ہو سکتا ہے، گالیاں سنتے سنتے، اب غصہ آ گیا ہو. نہیں کوئی خاص بات ہوئی ہے تبھی تو یہ ہشاش بشاش سا مظلوم مسلمان غصہ میں بپھرا ہوا لگ رہا ہے،..... جانتے ہو یہ غصہ میں کیوں آ گیا ہے؟؟ اس سے پوچھا گیا ہے

أتحب أن يكون محمد مكانك و أنت ناجٍ
کیا تم یہ چاہتے ہو کہ، ہم تمھیں چھوڑ دیں اور تمھارے بدلے میں ہم یہ سب محمد کے ساتھ کریں

      کیا کہا بد ذات! تیری زبان کٹ جائے ، تیرے ہونٹ گل جائیں..... ! ذلیل میرے عشق کا سودا کرنا چاہتا ہے، میری محبت کا امتحان لینا چاہتا ہے، میری زندگی کا سب سے گراں مایہ متاع پر حملہ کرنا چاہتا ہے، سن لے آج میں یہ سب کچھ اسی محمدﷺ کی محبت میں تو قربان کر رہا ہوں ، کہ جنت میں بھی ان کی معیت حاصل ہو جائے،.... خدا کی قسم اس حالت میں بھی مجھے یہ پسند نہیں کہ میری جان بچ جائے اور اس جاں بخشی کے بدلے میں ....... میرے محبوب محمد ﷺ کے پیر میں ایک کانٹا بھی چبھ جائے ۔ 
      سلامتی ہو خبیب تم پر، اور کیوں نہ ہو کہ سینکڑوں میل دور تمہارے محبوب نے تمہارا آخری سلام سن کر اپنی. مبارک زبان سے تمہیں سلام کا جواب دیا، محبوب پر جان دیتے ہوئے، محبوب کے لبوں پر تمہارے لیے''و علیک السلام یا خبیب''کے جملے ادا ہو رہے ہیں ۔ اور ہاں یقیناً محبوب حقیقی رب العالمین نے بھی تو تم پر سلامتی نازل کی ہوگی، جب تم نے جان دیتے ہوئے بھی اسی کو یاد کیا اور التحيات للہ.... السلام علینا و علی عباد ﷲ الصالحين...  کو اپنا آہ و نالہ بنایا، اور خدا ہی کو اپنے درد کا درماں جانا.....شاد باش اے خبیب تم نے ایک بہترین سنت جاری کردی ۔ کہ رب العالمین دربار میں جان کا نذرانہ پیش کرنے سے پہلے قیام و رکوع اور  سجدوں کا نذرانہ پیش کردیا  ۔۔۔

Comments