itteba e sunnat ka eazaz

*اتباع شریعت ذریعہ اعزاز، حکم عدولی ذریعہ محرومی*


حضرت مولانا عبد الرشید صاحب المظاہری دامت برکاتہم 
شیخ الحدیث مدرسہ اسلامیہ عربیہ  بیت العلوم سراۓ میر اعظم گڑھ یوپی



اللہ رب العالمین نے نعمتیں پہلے پیدا فرمایا اور انسان کو بعد میں پیدا فرمایا جنت کو پہلے پیدا کیا اس کے بعد بابا آدم علیہ السلام اور مائی حوا کو اس میں بھیجا اور ہر طرح کی خوشحالی کھانے پینے رہنے کی عطا فرمائی نہ کمانا نہ محنت کرنا نہ پکانا نہ چولھا دھونکنا پہلے دونوں کو جنت میں رکھ کر جنت کی نعمتیں چکھاکر اور اس سے آسودہ فرماکر اس کا عیش، لذت، خوش حالی، خوش نمائی دکھاکر شجرۂ ممنوعہ اس میں سے ایک کو قرار دیدیا کہ اس کا پھل کھانے کی اجازت نہیں تم دونوں اس کے قریب نہ جانا باقی پوری جنت سے جہاں سے چاہو آزادی بے فکری کے ساتھ بلا کسی روک ٹوک کے کھاؤ اہل السنّۃ والجماعۃ کا عقیدہ ہے کہ جنت و جہنم پیدا ہوچکی ہیں چنانچہ قرآن کریم اور احادیث نبویہ میں  جگہ جگہ اس کا ذکر آتا ہے
شیطان انسان کا ازلی دشمن اور انتہائی بے باک ہے اس نے آدم علیہ السلام سے دشمنی کیا جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے پیدا کیا اپنی روح اس میں پھونکی اللہ تعالیٰ نے خلافت ارضی کے واسطے ان کو پیدا فرمایا اور ازل سے اس کا انتخاب فرما چکے تھے مگر شیطان کی بے باکی اور رب العالمین کو نہ پہچاننا اپنے آگ سے پیدا ہونے کا غرور کہ اللہ تعالی کے سامنے اڑ گیا اور وہیں بڑے زور دار الفاظ میں کہا کہ میں ان لوگوں کو گمراہ کرونگا آدم علیہ السلام پر غصّہ ہوا تو پوری قوم کے چکر میں پڑ گیا ہمارے یہاں بھی عجیب معاملہ ہے کہ کسی سے خفا ہوتے ہیں تو اس کی سات پشت تک کو برا کہنے میں باک نہیں رکھتے کسی ایک کی برائی میں نہ معلوم کتنوں کو شامل کرلیتے ہیں زبان پر لگام نہیں لگاتے اللہ تعالیٰ نے اعلان کرکے پوری انسانیت کو خبردار کیا کہ وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے کہیں اس کی دشمنی چھپی نہیں ہے اس کے بہت کثرت سے کارندے ہیں۔ آخر آدم علیہ السلام اور مائی جی کو جنت سے ترکیب کرکے نکال دینے کا طریقہ اختیار کیا مگر اس بے عقل خدا کے نافرمان کو یہ پتہ نہیں کہ ہم تو ان دونوں سے دشمنی نکال رہےہیں اور درحقیقت علم الہی کے موافق یہی خلافتِ ارضی کا بہانہ ہے شیطان نے اللہ کی حکم عدولی کیا آدم علیہ السلام کا سجدہ کرنے کو اللہ نے فرمایا تو صاف انکار کردیا اڑ گیا ، اکڑگیا ، فرشتوں کے ساتھ رہتے ہوئے بھی اپنی انا کی وجہ سے اسے ہوش نہ ہوا کہ مجھے درحقیقت کرنا کیا چاہیے۔
آدم علیہ السلام سے بھی حکم عدولی ہوئی اگرچہ ایسا حسب تصریح قرآن کریم نسیان سے ہوا مگر آدم علیہ السلام کی فطرت آدمیت، اطاعت، سعادت تھی کہ انہوں نے دنیا میں آکر سب سے پہلے اپنے کیے پر ندامت اور توبہ واستغفار کیا اور خلافتِ ارضی سے سنوارے گیے اور شیطان راندۂ درگاہ اور رجیم ہوا ۔
خلافتِ ارضی کا کیا مطلب ؟ کہ آدم علیہ السلام اور ان کی ذریت اس خدائی زمین پر اللہ کے حکموں کے مطابق زندگی گزارے گی انسانیت والے اخلاق کردار اختیار کرے گی لوگوں کے حقوق اور حرام و حلال پہچانے گی اور جب اشارہ ٔ خداوندی ہوگا اس پر قربان ہوگی اور اللہ تعالی کی نافرمانی اور گناہ کے قریب نہ جائےگی ایک جھٹکا ایسا دیاگیا کہ پوری ذریت کو یاد رہے مگر ہم بابا آدم علیہ السلام کی آمد کے مقصد کو بھول گیے ہم شیطان کے بہکاوے میں آگیے اگر شیطان کے بہکاوے میں آ بھی گیے تو اس کا ادب وہی ہے جو آدم علیہ السلام نے اختیار فرمایا یعنی توبہ و استغفار اللہ کے سامنے سرجھکا لینا اسلام کامعنی یہی بیان کیا جاتا ہے "گردن بطاعت نہادن"جو حکم مولی کا ہو سر آنکھوں پر ، اپنی رائے اور خودی کو چھوڑ دیا جائے ، کیونکہ
خودی جب تک رہی اس کو نہ پایا
جب اس کو پالیا خود ہی عدم تھے
جب اللہ کی پہچان حاصل ہوجائے گی تو اپنا حادث ہونا اور اپنی نیستی سامنے آجائےگی حدیث پاک میں حکم دیا گیا ہے کہ اللہ تعالی کی بندگی اور احسان یہ ہے کہ اللہ کی عبادت اس تصور کے ساتھ  کرو گویا تم اللہ کو دیکھ رہے ہو اسلیے کہ اگر تم اللہ کو نہیں دیکھ رہے ہو تو اللہ تعالیٰ تو تم کو دیکھ رہے ہیں یہ تصور جمائیں کہ اللہ ہم کو دیکھ رہے ہیں اسی لیے ذاکرین کو دوران ذکر، الله حاضری، الله ناظری، الله معی،  کا تکرار بتایا جاتا ہے راہ راست پر لگیں ، سب چیزیں سامنے آجائیں گی ، ان شاءاللہ = مگر ہم تو اللہ کی ملاقات کو بھولے ہوے ہیں اللہ کی ملاقات تو ہونی ہے قرآن مجید اعلان کرتا ہے اسی لیے تو قرآن وحدیث میں حیاء حق اللہ کی تعلیم دی گئی حدیث میں حکم دیا گیا ہے کہ اللہ سے ایسی حیاء کرو جیسا کہ اس سے حیاء کرنے کا حق ہے یہ چیز کہاں آسانی سے ملیں گی جن لوگوں کو اللہ نے اس سے آراستہ فرمایا ہے اسی لیے حکم خداوندی ہے کہ صادقین کے ساتھ رہو یعنی اللہ کے سچے پکے بندوں کے ساتھ رہ کر ان سے صحیح راہ حاصل کریں اور صفت استحضار حاصل کریں
کہ اللہ تعالی ہر آن ہم کو دیکھ رہے ہیں مگر ہمیں اس کی فرصت اور فکر
کسی نے کیا خوب کہا ہے ؂
تمہمیں دنیا سے کب فرصت ہم اپنے غم سے کب خالی
چلو بس ہوچکا ملنا نہ تم خالی نہ ہم خالی
جب یہ تصور قائم ہوجائیگا کہ اللہ تعالی ہر آن حاظر وناظر ہیں ہمارے ہر حال کو دیکھ رہے ہیں تو پھر زبان کو آنکھ کو کان کو اعضاء وجوارح کو قابو میں رکھے گا اور اس کے لئے بھی اللہ تعالی ہی سے دعاکرےگا اور مددمانگے گا پھر اللہ تعالی کی نافرمانی اور گناہ سے بچے گا جھوٹ ، فریب ، غیبت ، حسد ، بہتان ، چوری ، ڈکیتی ، رشوت غرض تمام گناہوں سے بچے گا کیونکہ تصور جما ہوا ہے کہ اللہ تعالی دیکھ رہاہے استاد دیکھ رہاہے ماں باپ دیکھ رہے ہیں حاکم دیکھ رہا ہے تو گناہ اور جرم سے باز رہتاہے جب احکم الحکمین دیکھ رہاہے اور یہ بھی دیکھ رہاہے کہ احکم الحکمین دیکھ رہاہے تو گناہ کیسے کرے گا
یاد رہے جس طریقے سے زبان سے جھوٹ بولنا ، فریب دینا ، غیبت کرنا وغیرہ حرام ہے اسی طرح قلم سے بھی یہ امور اسی طرح ناجائز اور حرام ہے جس طرح حالت سکون میں یہ چیزیں حرام ہیں حالت غضب میں بھی حرام ہیں قلم سے غیبت لکھنا جھوٹ لکھنا رشوت اور سود کی تحریر لکھنا بھی حرام ہے اگر کسی سے بدلہ ہی لیناہے تو برابر سرابر کی اجازت ہے مگر عفو درگزر ایک شریفانہ عمل اور تقوی کی راہ ہے آج گناہ کا بہت بڑا اور برا دروازہ نیٹ ہے ایسا لگتاہے جیسے یہ تصور بن گیاہے کہ نیٹ پر الٹا سیدھا سب درست ہے وہاں شریعت وسنت کچھ نہیں بناتی پڑھے لکھے لوگ بھی نیٹ پر تفصیل کے ساتھ آتے ہیں جس کی مدح سرائی پر آگئے اس کیلئے زمین وآسمان کے قلابے ملا دیا اور جس کی مذمت پر آۓ تو کوئ خراب سے خراب بھدے سے بھدا لفظ استعمال کرنے میں دریغ نہیں کرتے آج اگر ہمارا اعزاز نکل چکاہے تو غور کریں کہ اپنوں میں کیا چل رہاہے ہمارے نشانے سے کوئ بڑا چھوٹا نہیں چُھوٹا ایک آدمی چھپ کر ایک گناہ کرتا ہے خدادیکھ رہاہے خداسے معافی مانگتاہے معافی ہوجاتی ہے مگر ایک گناہ ایساکیا جس پر سیکڑوں کو گواہ بنالیا تو کیا حشر ہوگا اللہ تعالی کی غیرت کاخیال کریں زبان وقلم دونوں کو قابو میں رکھیں زبان سے کوئ بات کہدیا اس کا ایک محدود دائرہ ہے مگر قلم سے نکلی ہوئ سیاہی ہمارے نامۂ اعمال کو سیاہ کرتی رہے گی اپنے اعزاز کا بھی خیال کریں اور تمام انسانوں کے اعزاز کا خیال رکھیں اسلام میں آبرو کا پاس ولحاظ بہت اہم ہے ایسے  گندے اور بھدے الفاظ کا استعمال کر کے اپنی زبان اور قلم کو گندہ کرنے سے اللہ تعالی ہماری حفاظت فرمائیں
آخر میں ایک امر کی طرف اشارہ ابھی ماہ مبارک میں ھندوستان کے عظیم المرتبت عالم دارالعلوم دیوبند کی شوری اور تعلیم کے رکن رکین صدرالمدرسین وشیخ الحدیث مفتی سعید صاحب پالن پوری رحمۃ اللہ رحمۃ واسعہ کا بمبی میں انتقال ہوا اللہ ان کی قبر کو بقعہ انوار بناۓ موت مؤمن کیلئے تحفہ اور اللہ تعالی کی ملاقات کا ذریعہ اور بزرگوں کی ارواح سے ملاقات کا وسیلہ ہے اللہ اکبر ! صحابہ جہاں ان کا انتقال ہوا وہیں آسودہ خواب ہوۓ ان جگہوں کو ان کے جسد اطہر کی تدفین سے شرف حاصل ہوا اللہ تعالی ہم سب کی مدد فرماۓ ہم اللہ تعالی سےاجر اور نعم البد ل کے امید وار ہیں -


( مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں) 

Comments