Riviews 1 نظرات / لماذا تأخر المسلمون؟ و لماذا تقدم غيرهم



 نظرات (1)

لماذا تأخر المسلمون؟ و لماذا تقدم غيرهم
(مسلمانوں کی پس ماندگی اور غیروں کی ترقی کے اسباب؟)

تنویر خالد قاسمی

ان دنوں فرصت کے لمحات میں کچھ لکھتے پڑھتے ایک حوالے کی تلاش میں

لماذا تأخر المسلمون؟ و لماذا تقدم غيرهم
(مسلمانوں کی پس ماندگی اور غیروں کی ترقی کے اسباب؟)

کی بھی کچھ ورق گردانی کا موقع ملا، کتاب کا نام سنا تھا مگر پڑھنے کا موقع نہیں ملا تھا، ابھی اچھا موقع تھا، تلاش کے بعد آخر کار مل گئ،
جس مضمون کے تحت حوالہ درکار تھا وہ نبی ﷺ بحیثیت مصلح انسانیت غیروں کی نظر میں، تھا۔
اس میں جس حوالے کی تلاش تھی وہ چوں کہ پرانے انداز پر بلا صفحہ نمبر لکھا تھا،  مذکورہ کتاب میں فہرست الٹ پلٹ کرنے پر پتہ چلا کہ اس طرح کا کوئی عنوان یا ذیلی عنوان نہیں ہے ، اور چونکہ کتاب قدیم طرز پر چھپی ہوئی ہے اس لیے شخصیات وغیرہ کا کوئی اشاریہ بھی موجود نہیں ہے،
کتاب کے نام سے ہی موضوع کا اندازہ ہوجاتا ہے، پھر فہرست پڑھ کر مضامین کی جھلکیاں عیاں ہوچکی تھیں، آج سے تقریباً سو سال پہلے لکھی ہوئی یہ کتاب، (جو اصل میں ایک خط ہے جو علامہ رشید رضا کے ایک شاگرد محمد بسیونی عمران صاحب نے بالواسطہ امیر شکیب ارسلان کو لکھا تھا کا جواب ہے)امت مسلمہ کے زوال کے وہی اسباب بیان کرتی ہے، جو آج کے علماء، بلکہ ہر دور کے علماء ہمیشہ بیان کرتے ہوئے آرہے ہیں، یعنی دین سے دوری، احکام الہی سے رو گردانی، تعلیمات نبوی ﷺ سے سرتابی، وغیرہ،
ایک خاص بات اس کتاب میں یہ بھی ہے کہ ان بنیادی اسباب سے ہٹ کر کچھ ظاہری اسباب کی نشاندہی بھی بڑے اچھے اسلوب میں کی گئی ہے، مثلاً مسلمانوں کی اخلاقی پستی، تجارت و معیشت کی تگ و دو میں لگ کر اپنے آپ کو بھلا دینا، معاشی سرگرمیوں میں قوم و ملت منافع سے آنکھیں بند کر کے بس اپنی ذات کے فائدے تلاش کرنا، وغیرہ وغیرہ
      اسی حوالے سے کتاب میں ایک انگریز کا واقعہ درج کیا گیا ہے، اس واقعہ کو پڑھ کر میرے سامنے اپنے بازار کا نقشہ گھوم گیا، جہاں ہم بسا اوقات محض اپنی شان کی خاطر کسی بڑی سی دکان سے خریداری کرتے ہیں، ایسا بھی نہیں کہ بڑی دکان سے سامان سستے داموں میں مل جاتا ہو، لیکن بس اپنے آپ کو بڑا سمجھتے ہوئے ہم یہ سب کرتے رہتے رہتے ہیں اور ہمیں اپنے بھائیوں کا خیال تک نہیں آتا۔

      ایک انگریز افسر کی کسی عرب ملک میں رہائش تھی، اس کے ساتھ اس کا انگریز نوکر بھی رہتا تھا، بازار سے سودا سلف لانا نوکر کی ہی ذمہ داری تھی، انگریز مالک ہر مہینے اس نوکر کو متعینہ رقم دے دیتا تھا تاکہ تاکہ اشیائے خورد و نوش اور دیگر ضروریات کی چیزیں جب بھی ضرورت ہو وہ خرید کر لے آئے،... مہینے کے آخر میں وہ  خرچ کا حساب کتاب دیکھتا،  ایک بار حساب کتاب دیکھتے ہوئے اندازہ ہوا کہ اس مہینے متعینہ مصارف میں  کم رقم خرچ ہوئی ہے۔

      اس مالک نے نوکر سے دریافت کیا کہ اس مہینے اتنی بڑی رقم کیسے بچ گئی، تو نوکر نے بتایا کہ اصل میں آپ نے جس دکان سے سامان لینے کو کہہ رکھا تھا، وہ تھوڑا زیادہ فاصلے پر ہے اور اس کے پاس سامان بھی کچھ مہنگا ہوتا، اب کی بار میں نے دوسری دکان سے سامان لیا ہے جو یہیں پاس میں ہی ہے اور وہاں آپ کی بتائی ہوئی دکان سے سستی قیمت میں سامان بھی مل جاتا ہے ، اس لیے کچھ رقم بچ گئی ہے، انگریز مالک نے کہا، نہیں تم سامان اسی دکان سے لیا کرو جو میں نے بتائی ہے چاہے وہ مہنگا ہی کیوں نہ دے، اس لیے کہ وہ ایک انگریز کی دکان ہے، دوچار قدم زیادہ ہی کیوں نہ چلنا پڑے اور کچھ روپے زیادہ ہی کیوں نہ لگیں اپنی قوم انگریز سے ہی لینا ہے، یہ عرب دکان دار چاہے سستا دے، لیکن وہ عرب ہے، انگریز نہیں !!!

Comments

  1. ہم لوگوں کو بھی ان سب باتوں کا خیال رکھنا چاہیے
    خاص کر مسلم دکاندار سے ہی خریدیں

    ReplyDelete

Post a Comment