مولانا سعید احمد اکبر آبادی کی آزاد شناسی : تنویر خالد قاسمی



 مولانا سعید احمداکبر آبادی کی آزادؔ شناسی 

( ایک مطالعہ )

تنویر خالد قاسمی 
جامعہ عثمانیہ سیتامڑھی بہار

حرف آغاز : 

       حضرت مولانا سعید احمد اکبر آبادی کا وطنِ اصلی بچھرایوں ، مرادآباد ، یوپی ، ہے آپ کے والد ماجد ” ڈاکٹر ابرار حسین صاحب “ آگرہ میں رہ کر میڈیکل پریکٹس کرتے تھے ، وہیں مولانا اکبر آبادی سن: ۸۰۹۱ میں میں پیدا ہوئے ، اور ابتدائی تعلیم بھی وہیں حاصل کی ، چونکہ آگرہ کا نام ”اکبرآباد“ بھی تھا؛ اسی مناسبت سے مولانا سعید احمد اکبرآبادی اپنے نام کے ساتھ ” اکبرآبادی “ کا لاحقہ لگاتے تھے ۔ (1)
  آپ کے خاندان کا ایشیا کی عظیم دینی درسگاہ ” دارالعلوم دیوبند “ سے والہانہ تعلق تھا ؛ حتی کہ آپ کی پیدائش سے پچھلی شب میں صبحِ صادق کے وقت آپ کے والد گرامی نے خواب دیکھا کہ ملازم نے آکر انھیں اطلاع دی کہ دو مہمان تشریف لائے ہیں ، جو آپ سے ملنا چاہتے ہیں ، انھوں نے نیچے اتر کر دیکھا تو حضرت مولانا قاسم نانوتویؒ اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ تشریف فرما ہیں ، ان بزرگوں نے کہا ،” ڈاکٹر ! خدا نے تم کو فرزند سعید عطا کیا ہے ، ہم اس کی مبارک باد دینے آئے ہیں ۔“ ان حضرات نے یہ فرمایا اور چل دیے ، اس خواب کے دو تین گھنٹے بعد ہی مولانا سعید احمد اکبر آبادی کی ولادت ہوئی ، اور خواب میں بزرگوں کے کہے جملے ” فرزندِ سعید “ کی مناسبت سے ڈاکٹر ابرار صاحب نے اپنے بیٹے کا نام ” سعید “ تجویز کیا ۔ (2)
  مولانا اکبرآبادی نے ابتدائی تعلیم آگرہ میں ہی لائق و فائق اساتذہ کرام سے حاصل کی ، پھر ” مدرسہ امدادیہ مرادآباد ہوتے ہوئے ، آپ دارالعلوم دیوبند پہنچے ، دارالعلوم دیوبند میں آپ نے چھ سال کے عرصے میں علامہ انور شاہ کشمیری ، مفتی عزیز الرحمان عثمانی ، مولانا شبیر احمد عثمانی ، مولانا حبیب الرحمان عثمانی ، مولانا اعزاز علی امروہوی ، شیخ الاسلام حسین احمد مدنی ، ۔۔۔ جیسے جبال العلم حضرات سے کسبِ فیض کیا ۔ مولانا اکبرآبادی نے سن : 1925ءمیں دارالعلوم دیوبند سے سندِ فضیلت حاصل کی اور اس کے بعد مزید تخصصات کے شعبے میں علمی تشنگی دور کرتے ہوئے ، جنوری ، سن : 1928ءمیں آپ نے دارالعلوم دیوبند سے تعلیم کا اختتام کیا ، (3 ) فراغت کے بعد آپ نے ڈھابیل میں تدریسی خدمات انجام دیں ، پھر مختلف عصری اداروں میں بھی آپ نے تعلیم حاصل کی ۔

     مولانا ابوالکلام آزاد سے مولانا اکبرآبادی کی شناسائی

  مولانا اکبرآبادی تقریبًا 1920 1921 ءمیں تحصیلِ علم کے لیے تشریف لے گئے ، دارالعلوم دیوبند جو روزِ تاسیس 1866 ءسے ہی آزادئ ہند کے متوالوں کے لیے آماج گاہ بنا ہوا تھا ۔ مولانا اکبرآبادی کے داخلے کے وقت وہاں کے ماحول میں کیا جوش و جذبہ رہا ہوگا ، ہم اندازہ کرسکتے ہیں کہ 1920ء میں خلافت کانفرنس الٰہ آباد ، اس کے بعد جولائی 1920 ءمیں ترک موالات پر فتوی (4 ) ،، یہ ایسے واقعات تھے ، جوآزادی کی جد وجہد میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے تھے ۔ پھر شیخ الہند کے انتقال کے بعد ان کے جانشیں شیخ الاسلام حسین احمد مدنی ؒ کی گرفتاری کے بعد مولانا آزاد کی صدارت میں نومبر ۱۲۹۱ ءکو جمعیۃ علما ءہند کا لاہور اجلاس ، ،، وغیرہ ایسے حالات تھے جن سے شاید ہی ہندوستان کا کوئی گوشہ ناواقف رہا ہوگا ، جب کہ دارالعلوم دیوبند تو بلاواسطہ ان تحریکات و واقعات کا محرک ہی تھا ؛ مولانا اکبرآبادی نے اسی زمانے میں مولانا آزاد کے بارے میں جانا اور سنا ( 5) یہ وہ زمانہ تھا جب مولانا ابوالکلام آزاد کی شخصیت و شہرت کا آفتاب نصف النہار پر تھا ؛ کیوں کہ وہ اکابرین ِ دارالعلوم دیوبند اور جمعیۃ علماءہند سے تعلق رکھنے کے ساتھ ساتھ ہی کانگریس پارٹی میں بھی بڑی اونچی حیثیت کے حامل تھے ۔ ( 6 )
        مولانا آزاد کا علمی مقام : 
  مولانا اکبرآبادی نے مولانا آزاد کو عبقری شخصیت قرار دیا ہے ، جس نے محض اپنی غیر معمولی خداداد ذہانت و فطانت اور ذاتی مطالعہ و تحقیق کے ذریعہ اس درجہ کمال کو حاصل کرلیا کہ بڑے بڑے علما ءکرام بھی آپ کی قابلیت کو سراہے بغیر نہ رہ سکے ۔ (7) 
مولانا اکبرآبادی نے علمِ حدیث اور متعلقاتِ حدیث کے حوالے سے مولانا آزاد کی علمی گہرائی پر ان کے ساتھ اپنے ایک مذاکرے کی بڑی تفصیلی سر گذشت بیان کی ہے کہ مولانا آزاد نے برجستہ ڈیڑھ گھنٹے فنِّ حدیث اور اسمائے رجال وغیرہ سے متعلق تقریر کی۔ (8 ) 
مولانا آزاد کے قوتِ استدلال کے تعلق سے مولانا اکبرآبادی نے ، جوش ملیح آبادی اور مولوی عبدالرزاق ملیح آبادی کا ایک واقعہ نقل کرتے ہیں کہ ان دونوں ملحدانہ نظریہ رکھنے والے حضرات کے سامنے مولانا آزاد نے ” مذہب کی ضرورت “ اور ” وجودِ باری “ پر ایسے عقلی دلائل دیے کہ دونوں مبہوت رہ گئے ، اور حقانیت اسلام اور وجود باری کے قائل ہوئے بغیر نہ رہ سکے ؛ لطف کی بات یہ تھی کہ مولانا آزاد نے اسلام کا نظریۂ توحید اور وجود باری قرآن کی روشنی میں سمجھایا ، سارے دلائل وہ تھے جو قرآن مجید میں وارد ہوئے ہیں ؛ لیکن چوں کہ مخاطبین وہ تھے جو قرآن کو دلیل نہیں مانتے تھے ، اس لیے مولانا آزاد نے قرآنی دلائل کو عقلیات کے پردے میں ایسے سائنسی پیرائے میں بیان کیا کہ ان دونوں حضرات کی عقلوں نے بے چون وچرا سرِ تسلیم خم کردیا ۔( 9) 
  نیز مولانا آزاد کا انداز یہ تھا کتابوں کے مطالعے کے وقت ضروری حواشی اور نوٹ تحریر کرتے جاتے تھے ، یہ اسی وقت ممکن ہے جب انسان کتاب میں مکمل ڈوب کر مطالعہ کرے ، ایک ایک جملے کو انتہائی دقت نظر اور اور غور و فکر کے ساتھ پڑھے ۔ مولانا آزاد کے ذاتی کتب خانے میں بہت کم ایسی کتابیں تھیں جن پر مولانا آزاد نے حاشیہ یا نوٹ تحریر نہ کیا ہو ۔ (10) 

    مولانا آزاد کا علمی کارنامہ ” ترجمان القرآن “

  مولانا اکبرآبادی کی رائے ہے کہ ” ترجمان القرآن “ سے پہلے اس انداز کی تفسیر اردو زبان میں نہیں ملتی ہے ، اس حوالے سے مولانا اکبرآبادی فرماتے ہیں کہ اب تک جتنی تفسیریں لکھی گئیں وہ سب کسی نہ کسی نظریہ اور مسلک کے رنگ میں لکھی گئی ہیں ؛ لیکن مولانا آزاد نے ان سب سے بلند ہوکر دعوتِ قرآن کو اپنا موضوع بنایا ہے ۔ (11) 
       مولانا اکبرآبادی نے ترجمان القرآن کی ایک خصوصیت وضعیت سے پاک ہونا بتایا ہے ، کہ دیگر تفسیریں اپنے زمانے کے رائج و متداول علوم کے رنگ میں رنگی ہوئی ہیں ، مثلًا کسی زمانے میں منطق و فلسفہ اور حکمت و علمِ کلام کا غلبہ تھا تو اس زمانے کی تفسیریں منطق و علم کلام کے انداز پر لکھی گئیں ، موجودہ زمانے میں سائنسی علوم و فنون کی طوطی بولتی ہے تو ؛ لوگ تفسیروں میں سائنسی نکات وغیرہ میں بلا وجہ طولانی بحثیں کرنے لگتے ہیں ؛ جب کہ مولانا کے خیال میں تفسیرِ قرآن کو اس وضعیت و صنَّاعیت سے پاک ہونا چاہیے ۔    ( 12) 
        صحیح معنوں میں دیکھا جائے قرآن کا موضوع ” انسانیت کو آخرت کی تیاری پر آمادہ کرنا اور اللہ کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کی تعلیم و ترغیب ہے اور جتنی باتیں اس میں تاریخی واقعات و آفاق سے متعلق آئی ہیں ، وہ سب اس بنیادی موضوع کی تائید و تقویت کے لیے آئی ہیں ۔ “۔ (13 ) 
  خدا کے بیان کردہ اصول ہی مسلمہ ہیں ؛ اس کے علاوہ سائنسی تحقیقات ہر آنے والے نئے زمانے میں فرسودہ خیالات بن جاتی ہیں ؛ فلسفے کے مختلف نظریات بعد میں آنے والے لوگوں کی نگاہوں میں اپنی کشش باقی نہیں رکھ پاتے ؛ جب کہ قرآن کریم کے پیش کردہ اصول و ضوابط وہ مسلمات ہیں جو اپنی مکمل چمک دمک کے ساتھ قیامت تک باقی رہیں گی ؛ ہاں یہ الگ بات ہے کہ ان مسلمات کو ہم مختلف زمانے میں مختلف لوگوں کے سامنے دل کش سے دل کش پیرائے میں بیان کرسکتے ہیں ؛ لیکن زمان و مکان سے اس درجہ متاثر ہوجانا کہ سائنسی تحقیقات کی مطابقت پیدا کرنے کے لیے زبردستی آیاتِ قرآنیہ کے مفاہیم میں کھیچ تان کی جائے یہ قرآن ( جسے اللہ نے غالب بنایا ہے ، جَائَ الحَقُّ وَ زَھَقَ الباطِلُ )(14 ) کو مغلوب بنانا ہے ۔ جو قطعًا نامناسب ہے۔ 
        چوں کہ مولانا آزاد کی طبیعت تحقیقی تھی ؛ اس لیے وہ جو کچھ بھی پڑھتے اسے ڈوب کر پڑھتے اور جو کچھ لکھتے قاری کو اس کی تہہ سے آشنا کرکے ہی چھوڑتے تھے ، آپ نے قرآن کریم میں آئے ہوئے مقامات و تاریخی واقعات کی بڑی دقّتِ نظر سے تعیین و تحقیق بھی کی ہے ۔
        مولانا اکبرآبادی نے ترجمان القرآن کو اردو زبان میں اپنے زمانے کی سب سے بہتر تفسیر قرار دیا ہے ؛ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہی جو باتیں محلِّ نظر تھیں ان کی نشاندہی بھی کی ہے ، مثلًا جب ” ساہتیہ اکیڈمی “ نے مولانا ابوالکلام آزاد کی تصنیفات و خطوط شائع کرنے کا ارادہ کیا تو مولانا اکبرآبادی نے ” برہان ، جون 1958 ءمیں ایک مضمون لکھا اور باضابطہ ساہتیہ اکیڈمی کی کمیٹی کو ایک اہم مشورہ دیا کہ مولانا آزاد کی تصنیفات شائع کرنے والی کمیٹی میں علماءکرام کو بھی شامل کیا جائے ؛
 اس لیے کہ مولانا آزاد کی تصنیفات میں بھی اس قسم کی بہت سی غلطیاں ہیں جن کی تصحیح قابل علماءہی کرسکتے ہیں ۔ مولانا کے الفاظ میں: 
  ” چنان چہ ترجمان القرآن جو مولانا کی تصانیف میں ایک شاہکار کی حیثیت رکھتی ہے ، وہ بھی غلطیوں سے خالی نہیں اور بعض غلطیاں تو علمی اعتبار سے بڑی فاحش ہیں ، مثلًا : سورۂ فاتحہ کی تفسیر میں ” مالک یوم الدین “ کے تحت مولانا نے عربی کا یہ شعر نقل کیا ہے ، 
ستعلم لیلی ای دین تداینت 
و ای غریم فی التقاضی غریمھا 
  اس شعر میں مولانا نے ” دین “ کے لفظ کو بکسر الدال پڑھا ہے حالاں کہ صحیح بفتح الدال ہے اور ” قرض “ کے معنی میں ہے ۔ (15 )  اسی طرح مولانا اکبرآبادی نے ترجمان القرآن کے پہلے پہل چھپ کر آنے کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے ، کہ عام طور پر لوگوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور سراہا ؛ مگر ایک طبقے میں اس پر سخت تنقید اور نکتہ چینی بھی ہوئی ، “(16 ) 
  مولانا اکبرآبادی نے ان تنقیدات کی بنیاد دو چیزوں کو قرار دیا ہے :
 (پہلی ) : تقلید محض اور جمودِ ذہنی کی وجہ سے لوگوں پر فقہی مکاتب کی فرقہ بندیوں کا غلبہ تھا ؛ اس لیے اعتراضات پیدا ہوئے ۔
(دوسری ): معترضین نے تفسیر بالرائے کا مفہوم نہ سمجھتے ہوئے مولانا آزاد پر تفسیر بالرائے کا الزام لگایا ۔
 تفسیر بالرائے کے شبہات دور کیے بغیر صرف اتنا کہہ دینا :
  ” جو کچھ لکھا ہے اس کی اصل صحابہ و سلف کے ہاں ضرور موجود ہے “ (17)
شاید ہر ایک کے لیے قا بلِ قبول نہ ہو ۔
  اگر پہلی بنیاد کا جائزہ لیا جائے تو شاید یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ مولانا اکبرآبادی سے اس بارے میں تسامح ہوا ہے ؛ سب سے بڑا جو مولانا آزاد پر اعتراض تھا ؛ اس کا شاید دور کا بھی تقلید محض اور جمودِ ذہنی سے تعلق نہیں ہے ۔ یہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ ہر نئی بات نیا انداز اچھا ہی ہو، آئیے ہم مولانا سعید احمد اکبرآبادی کی عبارت سے ہی سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
  ” مولانا آزاد نے ترجمان القرآن میں اس بات کی رعایت ملحوظ رکھی ہے کہ قرآن جو بات جس طرح جس مقام پرکہتا ہے؛ اسے اسی طرح مسلمانوں کے سامنے پیش کردیا جائے ، اس سے بعض غلط فہمیاں بھی پیدا ہوئیں ، مثلًا :سورۂ بقرہ میں جہاں وہ آیت ہے ، 
اِنِّ الذین آمنوا والذین ھادوا و النصٰریٰ و الصٰبئین من آمن۔۔۔۔(18 ) 
 پر بڑا ہنگامہ ہوا۔۔۔۔ چوں کہ مولانا نے اس آیت کا لفظ بہ لفظ ترجمہ کردیا تھا ۔ بات صرف اتنی تھی کہ اگر مولانا آزاد حاشیہ میں یہ لکھ دیتے کہ نبی ﷺ کی بعثت کے بعد ایمان کا مفہوم بالکل متعین ہوگیا ہے ، اور اب اس کا مفہوم یہ ہے ، نجاتِ اخروی کے لیے اب آں حضور ﷺ پر ایمان لانا لازم ، لابد اور ناگزیر ہے ۔۔۔۔۔میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ مولانا آزاد ان تمام باتوں کو مانتے تھے ۔“ (19 ) 
  مولانا اکبرآبادی نے ” بات صرف اتنی تھی “ کے ذریعہ اس بات کو ہلکے میں لیا ہے ؛ جب کہ بات بہت بھاری تھی ، اس لیے تو مولانا آزاد کو باضابطہ اس حوالے سے وضاحت کرنی پڑی کہ میرا عقیدہ ایسا ایسا ہے ۔۔ جو بعد میں باضابطہ ” میرا عقیدہ “ کے نام سے کتابی شکل میں شائع بھی ہوئی اور مولانا اکبرآبادی نے اس پر تبصرہ بھی کیا ۔ (20 )
        بہر حال ارباب فن سے یہ بات مخفی نہیں ہے کہ ایک مفسر کے لیے یہ بات ضروری ہے کہ وہ پورے قرآن وحدیث پر گہری نظر رکھتا ہو، اور کسی آیت کا مفہوم متعین کرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھا جائے کہ کسی دوسری آیت یا آپ ﷺ سے ثابت شدہ کسی حدیث کے خلاف نہ ہو ۔۔۔ 
  ورنہ لوگ ہدایت کے مقابلے گمراہ ہو جائیں گے ، ہم قرآن کریم کو پاروں کی ترتیب کے مطابق پڑھیں گے تو بہت سی آیتوں کا بہ ظاہر مفہوم بعد کے پاروں میں آئی ہوئی آیتوں کے مخالف پائیں گے اور بسا اوقات ایک عمل جو پہلی آیت سے جائز معلوم ہورہا تھا ، دوسری بعد میں آنے والی آیت اسی عمل کو ناجائز بتانے لگے گی ۔
        اس لیے ہر ہر آیت کے مفہوم کوسمجھنے کے لیے پورے قرآن و حدیث کے اعتبار سے مطلق و مقید ،اور ناسخ و منسوخ وغیرہ امور کا لحاظ رکھنا لابدی امر ہے ؛ ہاں اگر ترجمان القرآن میں صرف ترجمہ پر اکتفا کیا جاتا تو یقینًا اس طرح کے اعتراضات کا کسی کو کوئی حق نہیں تھا ۔ 
        ان جزوی تسامحات کے علاوہ یقینًا حضرت مولانا ابوالکلام آزاد کی تفسیر ترجمان القرآن بیش بہا علمی ورثہ ہے ، مولانا آزاد کی فصاحت و بلاغت اور انداز خطابت کی چاشنی بدیہی طور پر قاری کو براہِ راست اللہ تعالیٰ کا مخاطب بنا دیتی ہے ، ۔۔۔ مولانا سعید احمد اکبرآبادی نے بجاطور پر فرمایا ہے : 
  ” مولانا آزاد کا اپنا ایک خاص اسلوبِ نگارش ہے جو دل کو موہ لیتا ہے اور اس کے مطالعے سے ذہن و قلب پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔“ (21) 

          مولانا آزاد کی دعوت : 

  مولانا آزاد نے اپنی خطابت و صحافت کا مقصد ہی دعوت اور رجوع الی القرآن کو بنایا تھا ، مولانا نے ” الہلال “ و ” البلاغ “ کے ذریعہ مسلمانانِ ہند کو ایک نئی راہ دکھائی ، جس نے دلوں میں ایک نیا جوش اور نیا ولولہ پیدا کیا ۔ عام تعلیم یافتہ مسلمانوں کا جو حال ہوا سو ہوا ؛ لیکن سب سے اہم بات یہ ہوئی کہ اس دور کے بڑے بڑے علماءاور دانشور، خاص کر دارالعلوم دیوبند کے علماءعظام کا طبقہ مولانا آزاد کی تحریر ان کی تقریر اور ان کی دعوت سے بہت زیادہ متاثر تھے ،حضرت شیخ الہند نے مولانا آزد کے پیام اور ان کی دعوت میں وہ سب کچھ محسوس کیا جو حضرت شیخ الہند کی دلی تمنا تھی ، ان کے پیغام نے سوئی ہوئی روحوں کو نہ صرف بیدار کیا ؛ بل کہ ان کو ولولۂ تازہ سے سرشار کردیا اور مولانا برصغیر کی۔۔ ۔ کی آنکھوں کا تارا اورمحبوب رہنما بن گئے ۔ (22) 
  مولانا اکبرآبادی نے مولانا آزاد کی کانگریس سے عملی بستگی اور جمعیۃ علما ءہند کے کاموں میں عملی دلچسپی سے کنارہ کشی کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے : 
          ” میں اس معاملہ میں بہ طورِ قیاس یہ سمجھتا ہوں کہ ہو سکتا ہے کہ مولانا آزاد کو یہ محسوس ہوا ہو کہ ہماری رجوع الی القرآن اور جہاد فی سبیل اللہ کی دعوت ناکام ہوگئی ہے ، یا یہ کہ دعوت نے اتنی تیز رفتاری سے لوگوں کے اذہان و قلوب کو مسخر نہیں کیا ، کہ وہ اس کے لیے اس ایثار و قربانی کے لیے آگے آسکیں جو اس دعوت کے لیے ضروری ہے ۔ “(23 ) 
        جب کہ کانگریس سے عملی وابستگی اور جمعیۃ سے ظاہری دوری صرف تقسیمِ کار کے طور مانی جائے تو زیادہ بہتر ہے ، اس لیے کہ مولانا آزاد ملی مسائل کے لیے ہمیشہ جمعیۃ علماءہند سے وابستہ رہے ، اور مسلمانوں کے تعلیمی ، سماجی ، دینی اور اصلاحی کاموں میں رہنمائی کے لیے جمعیۃ علماء مولانا آزاد کے افکار ملی کی زندہ و متحرک تصویر تھی ؛ اگرچہ سیاسی کاموں کے لیے مولانا نے اس دور میں صرف کانگریس کے غیر فرقہ وارانہ پلیٹ فارم کو استعمال کیا ۔ (24 ) 
         یقینا مولانا آزاد کی دعوت بلند مقاصد رکھتی تھی ؛ لیکن ایسا نہیں کہا جاسکتا ہے کہ صرف ان کی ہی دعوت اس زمانے میں مؤثر و کارآمد تھی ، بل کہ ہر زمانے میں اللہ دعوت کے مختلف انداز سے لوگوں کو روشناس کراتا ہے ، اور ہر آدمی اپنی طبیعت و ظرف کے مطابق دعوت کے مختلف طریقوں کو قبول کرتے ہوئے ، رجوع الی اللہ پر عمل پیرا ہوتا ہے ۔

        مولانا آزاد کی سیاسی بصیرت :

        سیاست ایک ایسی پر خطر وادی ہے کہ اس کی خاردار جھاڑیوں سے دامن بچانا بہت مشکل ہے ؛ لیکن کوئی ایسا شجرِ ممنوعہ بھی نہیں کہ اس کے قریب ہی نہ ہوا جائے ۔ ہر زمانے میں خدائے تعالی نے ایسے باہمت حوصلہ مند افراد بھی پیدا کیے جو اس وادی میں رہ کر امت مسلمہ کی خدمت کا فریضہ انجام دیتے رہے ہیں ۔ مولانا آزاد اس کی واضح مثال ہیں ، جو بیک وقت مؤرخ و محقق ، ادیب و خطیب اور مبصر و مفسر بھی تھے ۔ اللہ نے انھیں اسلامی بصیرت کی روشنی میں چلنے کا فن عطا فرمایا تھا ۔ وہ حالات کا بہت دور بینی سے مشاہدہ کرکے اس کی گہرائی و حقیقت تک بہت جلد پہنچ جاتے تھے۔ وہ آئندہ ظاہر ہونے والے نتائج کو پہلے ہی اخذ کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتے تھے ؛ چناں چہ انھوں نے ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی کے جغرافیہ پر غور و خوض کر کے ،یہی نتیجہ نکالا تھا کہ یہاں مسلم فرقے اور مذہب کی بنیاد پر سیاست نہیں کی جا سکتی ہے ۔ مولانا سعید احمد اکبرآبادی اس حوالے سے مولانا آزاد کا ایک جملہ نقل کرتے ہیں :
        ” جس ملک میں مسلمان اقلیت میں ہوں وہاں الگ سیاست کا میدان بنانا ان کے حق میں مفید نہیں ہوگا ؛ لہٰذا فرقہ وارانہ سیاست کو چھوڑ کر آپ لوگ اب ملکی سیاست میں بھر پور حصہ لیں “(25 ) 
  مولانا آزاد تقسیم کے خلاف تھے ؛ اس لیے کہ اس وقت تک کہ مفروضہ پاکستان کے لیے ایسے خدو خال طے کرنا ناممکن تھا ، جس میں مذہب کی بنیاد پر مشتترکہ ہندوستان کے تمام مسلمان سما سکیں ۔ اس سے قطع نظر کہ تقسیم کے محرکات کیا تھے ؟ اور کون لوگ اس کے ذمہ دار تھے ؟ دنیا کی آنکھوں نے دیکھ لیا کہ اس تقسیم کے بعد ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کو کن حالات کا سامنا کرنا پڑا ۔ اور اب تک وہ کن چیلنجوں سے نبرد آزما ہیں ۔ ۔۔۔
  مولانا چاہتے تھے کہ مسلمان سیاست میں آئیں ؛ لیکن فرقہ کے طور پر نہیں ؛ بل کہ برادرانِ وطن کے ساتھ مل کر ہندوستانی کی حیثیت سے ، اس لیے انھوں نے کبھی بھی ان سیاسی جماعتوں اور اداروں کو نہیں سراہا ، جن کے نام میں مسلم وغیرہ لگا ہوتا تھا ۔ خود کے لیے بھی انھوں نے اس زمانے کے اعتبار سے غیر فرقہ پرست پارٹی کانگریس کے ساتھ جڑ کر کام کرنا مناسب سمجھا ، جواہر لال نہرو اور گاندھی جی آپ کی رائے کا بہت احترام کرتے تھے ، کانگریس میں ان کی رائے فیصلہ کا درجہ رکھتی تھی ، ۔۔۔ یہاں تک کہ مولانا آزاد کانگریس کی کرسئ صدارت پر بھی متمکن ہوئے ۔ (26 )
        سیاست میں اتنا اونچا مقام رکھنے کے باوجود ، مولانا آزاد نے کبھی اپنے دین و ثقافت سے رشتہ نہیں توڑا ، مسلمانوں کے حقوق اوراسلام کے مفادات کوانھوں نے قربان کرنا تو درکنار ؛ کبھی نظر انداز بھی نہیں کیا ، ان امور کے لیے وہ برابر مساعی و جد وجہد کرتے رہے۔ مولانا آزاد کا طرز عمل آج کے ہندوستان میں مسلم سیاست داں حضرات کے لیے نمونۂ عمل ہے ۔ 
جلالِ پاد شاہی ہو ، کہ جمہوری تماشہ ہو 
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی 
(اقبال )
  مولانابرملا کہا کرتے تھے : 
        ” ہماری زندگی کے دو حصے ہیں ، ایک دینی اور ثقادفتی زندگی ، اور ایک ہے ہماری قومی اور سیاسی زندگی ؛ تو جہاں تک ہماری دینی ور ثقافتی زندگی کا تعلق ہے ، میں صاف لفظوں میں آپ سے کہتا ہوں کہ اس میں کوئی Compromise نہیں ہو سکتا “ 
       اس موقع پر مولانا بے ساختہ ہاتھوں کو جھٹک دیا کرتے تھے ، اور تکرار کے ساتھ کہا کرتے تھے ۔ 
  ” ہم اپنے دین پر قائم رہیں گے ، اپنی ثقافت پر قائم رہیں گے ، اس معاملہ میں ہم کسی کے ساتھ ، کسی نوع کا سمجھوتہ نہیں کریں گے ۔ “ (27 ) 

        مولانا آزاد کی مذہبی زندگی :

        مولانا آزاد کا خاندانی پسِ منظر پیری مریدی والا تھا ، (28 ) مگر آپ نے اس زمانے کے خاص خانقاہی انداز کو چھوڑ کر عوامی خدمت کے لیے عمومی میدان کو اپنایا ، لیکن بہت سی چیزوں میں گوشہ نشینی کا خاص مزاج اب بھی مولانا کے اندر پایاجاتا تھا ۔ مثلًا وہ اپنی خانگی زندگی انتہائی پوشیدہ رکھتے تھے ، حتی کہ نماز بھی وہ اکثر اپنے کمرے میں ہی پڑھا کرتے تھے ۔ ذکر و تلاوت کا خاص شغف تھا ؛ لیکن وہ بھی اپنے انداز میں تنہائی میں ۔ عوامی اور عمومی حلقوں میں عام طور سے آپ کی مذہبی عبادات وغیرہ سے لاعلمی ہی تھی ۔ یہاں تک کہ مولانا سعید احمد اکبرآبادی کو مولانا آزاد کے انتقال کے بعد باضابطہ مراسلے کے جواب میں اس موضوع پر قدرے تفصیلی انداز میں لکھنا بھی پڑا ۔ (29) 
        ملتِ اسلامیہ کی فلاح و بہبود ہر وقت آپ کے پیش نظر ہوتی تھی ، چناں چہ وہ کانگریس سے عملی وابستگی کے ساتھ ساتھ ہی ، اس وقت کی دینی و ثقافتی تحفظ کی علم بردار مسلمانوں کی سب سے بڑی تنظیم ” جمعیة علماءہند “سے ہمیشہ جڑے رہے۔جمعیة علماءہندسے اتنا گہرا تعلق تھا کہ سن: 1920 میں جمعیۃ علماءکے دہلی اجلاس میں مولانا آزاد کی گوناگوں خوبیوں کی وجہ سے یہ تجویز بھی زیرِ غور آئی کہ مولانا ابوالکلام آزاد کو ” امام الہند “ نامزد کیا جائے ۔ (30 )
  لیکن چوں کہ جمعیۃخالص علماءکی جماعت تھی ، او ر ” امام الہند “ خلیفۃ المسلمین فی الہند کے برابر کا مقام ہے ، اور یہ بات بھی مسلم ہے کہ مولانا آزاد بہت اونچی سیاسی سوجھ بوجھ رکھتے تھے ، بہ ظاہر وہ اس کے اہل تھے ؛ مگر جمعیۃ کے ارباب حل و عقد کی نظر میں اس منصبِ جلیلہ کے لیے جس علمی گہرائی کی ضرورت تھی اور ورع و تقوی کا جوبلند معیار ہونا چاہیے تھا؛ مولانا آزاد اس پر پورا نہیں اترتے تھے ۔ اس لیے ” امام الہند “ کا منصب طے نہیں ہوپایا ۔ (31 ) 
        مولانا آزاد تقریبًا ہر دور میں جمعیة کی ورکنگ کمیٹی کے ممبر رہے اور اس کے اجلاسوں میں تشریف لاتے رہے ۔ (32) مولانا ابو الکلام آزاد آزادی اور علیحدگئ پاکستان کے بعد خاص طور سے اسلامی ثقافت و تہذیب کی ہندوستان میں حفاظت و تہذیب کے لیے ہمیشہ کوشاں رہے ، اخیر دنوں میں آپ کانگریس میں فرقہ پرست ذہنیت کے غلبہ کی وجہ سے بددل ہوگئے تھے ؛ لیکن اس زمانے میں بھی مسلم اداروں کے لیے کام کرتے ہی رہے ؛ دائرة المعارف حیدرآباد ، رضا لائبریری رامپور ، خدا بخش لائبریری پٹنہ ، مسلم یونین ورسٹی علی گڑھ اور جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی وغیرہ کے تحفظ و بقا کے لیے مولانا آزادنے لاکھوں کا گرانٹ طے کراوایا تھا ۔ (33) 
       پاکستان بن جانے کے بعد مولانا آزاد نے تقسیم حامیوں کی طرف سے ستائے جانے کو یکسر بھلادیا تھا اور مولانا نے پاکستان کے بارے میںتقسیم سے پہلے کی اپنی رائے کو بالکل ذہن سے نکال دیا تھا ، اور وہ چاہتے تھے کہ دونوں ملک دو اچھے پڑوسیوں کی طرح رہیں ، اس بارے میں نہ وہ صرف اپنی یہ رائے رکھتے تھے ؛ بل کہ اپنے اس بدلے ہوئے موقف کے خطوط پر دوسروں کو بھی سوچنے کے لیے کہتے تھے اور باضابطہ اس کے لیے لوگوں کی ذہن سازی کرتے تھے ۔ (34 )
حرف آخر : 
       مولانا سعید احمد اکبرآبادی کو سن :1963 ءسے 1985 ءتک تقریبًا 22 سالوں تک مولانا ابوالکلام آزاد کے ساتھ بیٹھنے قریب سے دیکھنے اور ان کی شخصیت کو پرکھنے کا موقع ملا ۔(35) یقینًا مولانا اکبرآبادی نے مولانا آزاد کو بعد والوں کے سامنے روشناس کرایا ہے ، مولانا اکبرآبادی نے مولانا آزاد کے تعارف میں مبالغہ سے کام نہ لیتے ہوئے ، اصول تنقید و تعارف کا پورا خیال رکھا ہے ، وہ مولانا آزاد کے بہت بڑے مداح تھے ( 36)، لیکن مدح سرا ئی میں بھی انہوں نے مبالغہ سے کام نہیں لیا ہے ، ان کی جو علمی و عملی حیثیت تھی اس کا منصفانہ تذکرہ کیا ہے ، مولانا آزاد کی جو خوبیاں تھیں ، ان کوبیان کیا ہے ، اور اسی طرح جو کمیاں تھیں انکے بیان سے بھی صرفِ نظر نہیں کیا ہے، عجب بات یہ ہے کہ مولانا اکبرآبادی صاحب نے مولانا آزاد کے ناقدین کی تنقیدوں ؛ بل کہ تنقیصوں کا بھی بڑے ہی مہذب انداز میں تذکرہ کیا ہے ، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ صاحب ِ تذکرہ مولانا ابوالکلام آزاد کی طرح مولانا اکبرآبادی بھی مخالفین کو برا بھلا کہنا جانتے ہی نہیں تھے۔ (37) بلکہ مولانا آزاد کی جوکچھ لوگوں نے مخالفت کی ہے ؛ اس کو مولانا اکبرآبادی نے مولانا آزاد کے بڑے ہونے کی دلیل قرار دیا ہے۔ ( 38 )اور اخیرمیں قرآنِ کریم کی دو آیتیں : 
  اِنّ َ الحسنات یذھبن السیئات ( نیکیاں برائیوں کو دور کردیتی ہیں ) (39)اور فالھمھا فجورھا و تقوٰھا ( پھر اس کے دل میں وہ بات بھی ڈال دی ، جو اس کے لیے بدکاری کی ہے اور وہ بھی، جو اس کے لیے پرہیزگاری کی ہے) ( 40)
پیش کرتے ہوئے یہ کہہ کر سب سے وزنی جواب دے دیا کہ بھائی مولانا آزاد میں خوبیاں اور خرابیا ں دونوں تھی اس لیے کہ یہ تو انسانی جبلت ہے اور امید ہے کہ خوبیاں خرابیوں کو چھپا لیں گی ۔(41)







حواشی : 

  (1 ) : ابو اسلمان شاہ جہاں پوری ، مولانا ابو الکلام آزد مرحوم (پیش لفظ ، مصنف کے حالات ) ص: 9
  ( 2 ) : معارف مجلہ تحقیق ، جولائی ، دسمبر 2011 ء، ص : 58
  (3 ) : ایضًا : ص : 59
  ( 4) : تحریک آزادئ ہند میں مسلم علماءاور عوام کا کردار ، محمد سلمان منصور پوری ۔ ص : 93
  ( 5 ) : مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم ، خطاب مولانا سعید احمد اکبرآبادی ، ص : 32
  (6 ) : ایضًا : ص : 46
  (7) : ایضًا : ص: 90
  ( 8 ) : ایضًا ، دیکھیے ص : 35
  (9) : ایضًا ، دیکھیے ص : 37
  ( 10 ) : ایضاً ، دیکھیے ص : 44
  ( 11 ) : مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم ، مقالہ و مراسلہ ، بہ عنوان : ترجمان القرآن مولانا سعید احمد اکبرآبادی ، ص : 73
  (12) : ایضاً ، دیکھیے ص : 74
  (13 ) : علوم القرآن ،مفتی تقی عثمانی صاحب ، مطبوعہ : مکتبہ دارالعلوم دیوبند ، ص: 391 ،
  ( 14 ) : القرآن : سورة الاسراء، آیت : 81 
  (15 ) : مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم ، نظرات ، بہ عنوان تصنیفاتِ آزاد اور ساہتیہ اکیڈمی مولانا سعید احمد اکبرآبادی ص : 93 
  (16 ) : تفصیل کے لیے دیکھیے ، ،ولانا ابوالکلام آزاد مرحوم ، مقالہ و مراسلہ ، بہ عنوان : ترجمان القرآن مولانا سعید احمد اکبرآبادی ص : 78 و 79
  (17 ) : ایضاً ،
  (18 ) : القرآن ، سورہ البقرہ ، آیت : 62
  (19) : تفصیل کے لیے دیکھیے : مولانا ابوالکلام آزد مرحوم ، خطاب مولاناسعید احمد اکبرآبادی ، ص : 55 و 56
  (20) : مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم ، تبصرے ، (برہان ، مئی ، 1960 ء) نام کتاب ” میرا عقیدہ “ تبصرہ نگار مولانا سعید احمد اکبرآبادی ص : 114
  (21 ) : مولانا ابوالکلام آزد مرحوم ، خطاب مولاناسعید احمد اکبرآبادی ، ص : 57
  (22 ) : ایضاً ص : 42
  ( 23 ) : ایضاً ص : 45 
  (24 ) : ابو سلمان شاہجہاں پوری حاشیہ ، ص: 68 مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم ،
  (25 ) : مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم ، خطاب مولانا سعید احمد اکبرآبادی ، ص :48
  (26) : تفصیل کے لیے دیکھیے آزادی ہند (انڈیا ونس فریڈم کا اردو ترجمہ ، مطبوعہ مکتبہ جمال لاہور ) ص : 43 
 ( 27) : مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم ، خطاب مولانا سعید احمد اکبرآبادی ، ص : 48
  ( 28 ) : ایضاً ص : 32 
  (29 ) : تفصیل کے لیے دیکھیے ، مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم ، مقالہ و مراسلہ ، بہ عنوان :مولانا ابوالکلام کی مذہبی زندگی ، ص : 83
 (30 ) : مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم ، خطاب مولانا سعید احمد اکبرآبادی ، ص : 61
 (31 ) : ایضاً 
 (32) : ایضاً ص: 44
 (33) : تفصیل کے لیے دیکھیے مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم ، خطاب مولانا سعید احمد اکبرآبادی ، ص: 51 سے 53
 (34 ) : تفصیل کے لیے دیکھیے مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم ، خطاب مولانا سعید احمد اکبرآبادی ، ص : 24 سے 48
 ( 35) : ایضاً ص : 32 
  (36) : ابو اسلمان شاہ جہاں پوری ، مولانا ابو الکلام آزد مرحوم (پیش لفظ ، مصنف کے حالات ) ص : 13
  (37) : مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم ، خطاب مولانا سعید احمد اکبرآبادی ، ص : 49
  (38 ) : مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم ، خطاب مولانا سعید احمد اکبرآبادی ، ص : 62
  (39 ) : القرآن ، سورة ھود آیت : 114 
  (40) : القرآن ، سورة الشمس ، آیت :8
  (41 ) :مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم ، خطاب مولانا سعید احمد اکبرآبادی ، ص: 46

Comments