Riviews 2/ Bazar se Jannat tak نظرات 2 / بازار سے جنت تک : تنویر خالد قاسمی


نظرات ( 2 )

بازار سے جنت تک

  تنویر خالد قاسمی
اکذنڈی ، پریہار ، سیتامڑھی بہار 


      اس لاک ڈاؤن کے زمانے میں پسند کی سبزیاں تلاش کرنا بہت مشکل کام ہے، خیر جو کچھ ملا خریدتے خریدتے وقت کافی تنگ سا ہوگیا تھا،  اس لیے بھاگم بھاگ میں گھر کی طرف روانہ ہوا. گھر میں زور و شور سے افطاری کی تیاری چل رہی تھی، محترمہ عقبی آنگن میں مٹی کے چولہے پر،  لکڑی کی آنچ سے پکوڑے کی آخری گھانی کراہی سے نکالنے میں مصروف تھی، امی جان محلے کے ضرورت مند لوگوں کے لیے افطاری کا سامان مرتب کر رہی تھیں، جو کبھی ان گھرانوں کے بچے بذات خود اپنے برتنوں میں لے جاتے ہیں اور کبھی کسی کسی گھر میں پہنچانا پڑتا ہے۔
       صفیہ ( میری چار سال کی بچی) اور فاطمہ ( میری ساڑھے تین سال کی بھانجی) ادھر ادھر اچھل کود کر رہی تھیں ،جو افطاری کے سامان سے کبھی کچھ اڑا لیتیں اور کبھی کسی چیز پر ہاتھ صاف کرنے میں مشغول رہتی ہیں، اور میرے گھر میں داخل ہوتے ہی، کبھی میں سلام میں پہل کر جاتا، کبھی وہ سبقت کر جاتی ہیں، کبھی دونوں بچیوں میں یہ ٹھن جاتی ہے کہ میرے ابو ہیں تو تم نے پہلے سلام کیوں کیا؟ میرے ماموں ہیں تو پہلے میں جواب دوں گی. اور پھر ابو کیا لائے اور ماموں کیا لائے کی صدا گونج اٹھتی ہے، اور بسا اوقات تھیلے کی تفتیش کا عمل بھی آناً فانًا میں مکمل کرلیا جاتا ہے، مگر وقت اتنا تھوڑا تھا کہ دسترخوان لگنا شروع ہو چکا تھا، عموماً بچے ہی دسترخوان لگاتے ہیں، وہ اس میں مشغول تھے ، اس لیے میں نے جلدی جلدی بازار سے خریدی ہوئی سبزیاں وغیرہ ، مطبخ سے سے ہٹ کر، ایک صندوق کے اوپر رکھ دیا، یہ صندوق صرف صندوق ہی نہیں، ٹیبل کا کام بھی کرتا ہے، عموماً میں بازار سے سودا سلف لاکر کبھی ترتیب سے کبھی بے ہنگم سے انداز میں اسی صندوق پر ڈال دیتا ہوں، بعد میں امی جان، یا محترمہ ہر سامان کو قرینے سے اس کی متعینہ جگہ پر رکھ دیتی ہیں۔
       مغرب کی نماز کے بعد جب محترمہ تھیلا خالی کرنے گئی، تو........ کیوں یہ فری میں مل گیا تھا کیا؟! اس نے پیسے نہیں لیے کیا!؟ صحيح سے دیکھ کر ڈھنگ کا سامان نہیں لے سکتے تھے کیا!؟ اس طرح کے کئی ایک جملوں کے ساتھ میری تواضع ہونے لگی، میں نے خاموشی سے اور کچھ دعائیہ جملے بھی سننے میں ہی عافیت جانا، کہ یہ بے چاری مستورات روزہ رکھ کر بھی مردوں سے کہیں زیادہ، خاص کر اس لاک ڈاؤن کے زمانے میں محنت کرتی ہیں  شدید گرمی کے اس زمانے میں بھی وہ چولھے پر مشغول ہوتی ہیں، جب کہ شام ہوتے ہوتے تک مرد حضرات بے سدھ سے ہو جاتے ہیں۔
       اگر اس حدیث نبوی ﷺ کےمفہوم کو وسعت دی جائے کہ روزہ افطار کرانے والے کو روزہ رکھنے والے کے برابر اجر ملتا ہے تو یقیناً ہماری یہ گھریلو عورتیں، روزانہ مردوں کے مقابلے روزے کا کئی گنا زیادہ ثواب اپنے نام کرتی ہیں۔
من فطر فیہ صائما کان لہ مغفرۃ لذنوبہ ، وعتق رقبتہ من النار ، وکان لہ مثل اجرہ من غیر ان ینقص من اجرہ شیء
 ( رواہ البیھقي في شعب الإيمان رقم :٣٣٣٦)
      اور یوں بھی نفس خدمت کا اجر بھی اتنا زیادہ ہے کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ قیام فرمایا. صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں کچھ روزے سے تھے اور کچھ کے روزے نہیں تھے، روزہ دار لوگ تو شدت گرمی کی وجہ سے اجتماعی خدمت کے کچھ بھی کام نہ کرسکے، اور جنہوں نے روزہ نہیں رکھا تھا، انہوں نے سواریوں کو پانی پینے اور چرنے کے لیے بھیجا، اور خدمت کے کام محنت مشقت سے کیے، یہ دیکھ کر رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جن لوگوں نے روزہ نہیں رکھا وہ آج سارا ثواب لے گئے۔
عن أنس رضي الله عنه قال كنا مع النبي ﷺ أكثرنا ظلًا من يستظل بكسائه، و أما الذين صاموا فلم يعملوا شيئًا، و أما الذين أفطروا فبعثوا الركاب و امتهنوا و عالجوا فقال النبي ﷺ ذهب المفطرون اليوم بالأجر، 
( رواه البخاري باب في فضل الخدمۃفي الغزو، رقم:٢٨٩)
      اس حدیث کی رو سے جس میں روزہ رکھے بغیر خدمت پر اتنا اجر ہے، ہماری مستورات کے کیا کہنے کہ وہ روزہ بھی رکھتی ہیں اور خدمت بھی کرتی ہیں، اللہ ان کی خدمت کو قبول فرمائے اور ہمیں ان کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے- آمین
      اصل میں ہوا یہ تھا میں سبزی خریدتے ہوئے، ایک بچے کے پاس سے گزرا، وہ بچہ ایک معمولی سی ٹوکری میں، کچھ پھل فروخت کر رہا تھا، روزانہ عموماً اس کی بیوہ ماں ٹوکری لیے بیٹھی رہتی تھی، بازار سے ہی ہول سیل قیمت پر کچھ پھل وغیرہ خرید کر فروخت کرتی ہے اور اس طرح اپنے یتیم بچوں کی پرورش کرتی ہے، ماشاء اللہ ایک بچہ میرے مکتبہ کے قریب والے مدرسہ میں زیر تعلیم بھی ہے، آج وہی مدرسہ والا بچہ اپنی ماں کے بجائے دکان سنبھالے بیٹھا تھا، کچھ معمولی سے کیلے وغیرہ اس کی ٹوکری میں تھے، میں نے اندازہ لگایا کہ تقریباً دو درجن کیلے ہوں گے، تو میں نے اس بچے کہا دو درجن کیلے پیک کر دو، میں سبزی لے کر آتا ہوں تو لیتا چلا جاؤں گا، میں سبزی وغیرہ خرید کر اس بچے کی ٹوکری والی دکان پر پہنچا تو بچہ موجود نہیں تھا، اس کی بیوہ ماں دکان سنبھالے بیٹھی تھی، میں نے اس سے بچے کے بارے میں پوچھا اور بتایا کہ میں نے کیلے پیک کرنے کو کہا تھا، تو اس نے مجھے ایک پیکٹ پکڑا دیا، میں نے طے شدہ قیمت اس کے حوالے کی اور کیلے کا پیکٹ تھام لیا، جلدی میں تھا دھیان نہیں دیا کہ بچے نے چھوٹی سی تھیلی میں وسعت سے زیادہ کیلے ڈال دیے تھے، اس لیے کچھ کیلے اکیلے اکیلے رہنے کی بجائے باہم مربوط و مخلوط ہوگئے تھے.
      محترمہ کا غصہ کرنا بھی بجا تھا، کہ بالکل میرے مکتبہ کے سامنے ہی، ایک نوجوان مسلمان آڑھتی کا پھلوں کا اچھا خاصا سا گودام ہے، جہاں سے چھوٹے دکاندار، اور خوانچہ فروش پھل خرید کر فروخت کرتے ہیں، مجھے بھی اس گودام سے کافی سستے داموں میں حسب ضرورت پھل مل جایا کرتے ہیں، مثلاً ابھی ٹھیک ٹھاک سے کیلے بازار میں چالیس روپے درجن ملتے ہیں، لیکن گودام کا مالک مجھے تیس بتیس روپے میں دے دیتا ہے، بسا اوقات میں وہاں سے ادھ پکے کیلے خرید لاتا ہوں، گھر میں فطری طور پر دو تین بعد وہ پکتے ہیں تو دوا سے پکے ہوئے کے مقابلے میں کافی ذائقہ دار ہوتے ہیں۔
       اتنی ساری سہولیات کے بعد بھی چھوٹے چھوٹے سے انگشت بھر کے حلوے جیسے کیلے خریدنا یقیناً محترمہ کے نزدیک قابل مواخذہ عمل تھا، اور اسے باز پرس کا پورا اختیار تھا،.... جب کچھ گرما گرمی ختم ہوئی تو میں نے کہا کہ
 " میں نے یہ نہیں دیکھا تھا کہ میں کیا خرید رہا ہوں، کیسا خرید رہا ہوں؛ بس میں نے یہ دیکھا تھا کہ کس سے خرید رہا ہوں، اور میں نے یہ سوچا تھا کہ، جیسے اس  یتیم بچےکے کچھ خراب سے کیلے میں نے بہ خوشی قبول کرلیے ہیں، شاید اللہ تعالیٰ میرے ٹوٹے پھوٹے سے اعمال بھی ویسے ہی قبول کر لیں گے اور میرے لیے جنت کا راستہ کچھ آسان ہوجائے گا ۔ "
       الحمد للہ اس جملے نے محترمہ کا سارا غصہ کافور کر دیا. اور ان کی مسکراہٹ یہ کہہ رہی تھی کہ آپ نے گھاٹے کا سودا نہیں کیا۔  

Comments

  1. اللہ تبارک تعالیٰ ہم سب کو بھی اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین

    ReplyDelete

Post a Comment