AaleYasir / ye ishq nahin asan (1) یہ عشق نہیں آساں، (1) آل یاسر ؓ



یہ عشق نہیں آساں


صبرًا آل یاسر فان موعدکم الجنۃ
( آل یاسر صبر سے کام لو ، میں تمھارے لیے جنت کا وعدہ کرتا ہوں ) 
تنویر خالد قاسمی
   
       قبیلہ بنی مخزوم میں ہر آدمی غصے میں بھرا نظر آرہا تھا ، ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی نے اجتماعی طور پر پورے قبیلے کی بے عزتی کی ہے ، اور سب اسی سے تلملائے ہوئے ہیں ، کہ اس بے عزت کرنے والے کو خاک میں ملا کر دم لیں گے ، ۔۔۔ اسے ہمت کیسے ہوئی کہ اس نے ہمارے معبودوں کے سامنے گردن خم کرنے سے سرتابی کی ، ان کے مقابلے میں ایک کی آواز لگائی ، ارے کیا ایسا ممکن ہے ؟ !  اتنے ساروں کے مقابلے میں صرف ایک معبود مان لیا جائے ! ارے یاسر کی اوقات ہی کیا ہے ؟! ہمارے ٹکڑوں پر پل کر جوان ہوا ؛ ہم نہ ہوتے تو مکہ میں قدم رکھنے کی بھی جگہ نہ ملتی ، کیا اسی دن  کے لیے ہم نے اسے پناہ دی تھی ، اسی دن کے لیے ہم نے اسے اپنے خاندان کا  حصہ مانا تھا !کہ وہ ہم سے پوچھے بغیر ہمارے خلاف چل پڑے ، اجنبی اور نئے دین کو اختیار کرلے ، ہمارے معبودوں کی توہیں کرنے لگے ؛ کہ ان پتھر کے بتوں سے کچھ نہیں ہوتا ، ارے ہمارے باپ دادؤں نے انھی بتوں کو پوجتے ہوئے زندگی گزار دی ہم کیسے محمد کے کہنے پر ان سے ناطہ توڑ لیں ، ۔۔۔۔۔جوش و غصہ میں ڈوبی ہوئی بہت سی آوازیں گڈ مڈ ہورہی ہورہی تھی ،  آل یاسر کو کس طرح سیدھا کیا جائے ،اس پر مشورہ ہو رہا تھا ، کچھ لوگوں نے کہا : پہلے سمجھا بجھا کر دیکھتے ہیں مان جائےے تو اچھی بات ہے ؛ ورنہ ۔۔۔۔۔لیکن ایک آواز ابھری : ابھی تک محمد کے جادو سے مسحور کسی شخص نے بھی واپسی کی ہے کہ یہ آلِ یاسر ہماری بات مان لے گا ؟! بالآخر یہ طے پایا کہ آلِ یاسر ہیں ہی کتنے ، انھیں اتنی سخت سزا دی جائے کہ آئندہ کوئی اس گھرانے کی راہ پر چلنا چاہے ، تو ہمت کے قدم پہلے ہی ڈگمگانے لگیں ، جرات پہلے ہی غش کھا کر گر جائے ، خوف و ہراس کی وہ تیز و تند آندھیاں برپا کی جائیں کہ صبر و ثبات درختوں سے جدا ہونے والے بے حیثیت پتوں کی طرح ساتھ چھوڑ دیں ، اور کوئی اس نئے دین کو قبول کرنے کی سوچ بھی نہ سکے۔اس بات پر جوانوں نے عہد و پیمان کیے ، بوڑھوں نے تشجیعی کلمات کہے ، کہ یا تو یاسر ، اس کی بیوی سمیہ ، اس کا لڑکا عمار اس نئے دین سے منہ موڑ لیں ، یا ان کی زندگیاں ان سے منہ موڑ لے !

      اگلے دن کی صبح گویا آل یاسر کے لیے قیامت کی صبح تھی ، تکلیف دینے کے نئے نئے انداز اپنائے جانے لگے ، کوئی کوڑوں کی برسات پر تلا تھا ، تو کوئی لاٹھی ڈنڈے سے خبر لے رہا تھا ، کچھ ایسے بھی تھے جن کے ہاتھوں میں جلتی ہوئی لکڑیاں تھیں اور وہ تھوڑی تھوڑی دیر پر بدن کےکسی حصے پر ایسے داغ دیتے جیسے کسی ناسور کا علاج کر رہے ہوں ، یہ لوگ بھی تھک گئے تو ایک طرف کو ہٹ کر بیٹھ گئے ، ان کے ہٹتے ہی تازہ دم لوگ انگاروں ، لاٹھیوں ۔۔۔۔۔ اور کوڑوں کی طرف اس طرح لپکے جیسے کئی دنوں کے بھوکے بڑی مشکل سے حاصل ہونے والے کھانے کی طرف لپکتے ہیں ، کہ کہیں وہ کھانا پیٹ بھرنے سے پہلے ہی ختم نہ ہوجائے ، ہاں ہاں یہ بھوکے درندے ہی تھے ، جو یہ سوچ رہے تھے کہ کہیں ان کی باری آنے سے پہلے ہی اس مسلمان گھرانے پر موت نہ مہربان ہو جائے ، اپنی دانست میں ہر ایک بھر پور زور صرف کر رہا تھا ،لیکن ایمان و اسلام کا درخت اپنی مضبوط جڑ کے ساتھ تمام بادِ مخالف کے سامنے سینہ سپر تھا ، جہاں سوز اذیتوں کی دھوپ اس درخت کے تنے تو کیا پتوں کو بھی مرجھانے میں ناکام تھی۔

کشجرۃ طیبۃ اصلھا ثابت و فرعھا فی السماء

      ان مظلومیں کے حلق سوکھ جاتے ، جسم کی کھالیں جل جاتی ، بے انتہا خون بہہ جاتے ، جسم کا ایک ایک حصہ اپنے اوپر بیتے ہوئے ظلم و ستم کی داستان بیان کرنے لگتا ۔ قریب تھا کہ پائے ثبات متزلزل ہوجائے ، صبر دامنِ صبر چھوڑ دے ،شمعِ امید بجھ جائے، اور ہمت بے حوصلہ ہوجائے ؛ لیکن نبی ﷺ کی زبان سے نکلا ہوا جملہ : صبرًا آل یاسر فان موعدکم الجنۃ ( آل یاسر صبر سے کام لو ، میں تمھارے لیے جنت کا وعدہ کرتا ہوں ) ان کے لیے آبِ حیات کا کام کرتا ، صرف آبِ حیات نہیں ؛ بل کہ جنت کا یہ مژدہ ان کے لیے جنت کی نہر حیات بن جاتا ، پھر وہ ساری اذیتیں اور تکلیفیں اس طرح اپنے اوپر لیتے جیسے وہ جنت میں محوِخرام ہیں اور ان پر انعام و اکرام کی بارشیں ہورہی ہیں  ان کو ” سلام قولًا من ربٍ رحیم “ کہا جا رہا ہے ،وہ محبوب کےہونٹوں سے نکلنے والے جاں فزا جملے کو یاد کرتے اور تازہ دم ہوجاتے ، ان کا جسم بے چین ہوتا تکلیف محسوس کرتا ؛ لیکن روح پر سکون ہوتی اس لیےوہ خاموشی سے راہِ عشق میں تیز گامی سے آگے بڑتے جا رہے تھے ۔

یہ تو راہِ شوقِ جنون ہے ، اسے راحتوں کی سزا نہ دے
کہ وہ عشق بھی کوئی عشق ہے ، جو اذیتوں میں مزا نہ دے

      صرف بنی مخزوم ہی نہیں ؛ بل کہ سارے کفارِ مکہ حیران تھے کہ یہ گوشت پوست کے انسان ہیں یا پتھر و فولاد ! بڑی بڑی اذیتیں ان کو ہلا نہیں پارہی ہیں ، گندی گندی گالیاں ان کی پیشانیوں پر  شکن نہیں لا پاتیں ،۔۔۔۔۔ یہی سب سوچتے ہوئے ایک دن ابو جہل سمیہ کے پاس سے گزرا  رک کر سمیہ کو دیکھا اور بھدی بھدی گالیاں دینے لگا تاکہ سمیہ برا مانے اور وہ لوگوں کے ساتھ مل کر مذاق اڑائے ، لیکن یہاں تو '' صبرًا آل یاسر فان موعدکم الجنۃ ۔۔۔''ان لوگوں کو مدح و ذم سے بے نیاز کر چکا تھا ، اس لیے ایسا لگا جیسے سمیہ نے سنا ہی نہ ہو ، ابو جہل سمیہ کی اس لاتعلقی اور بے پرواہی سے جھنجلا گیا ، اور اس نے سمیہ کی ناف کے نچلے حصے میں اس زور سے مارا کہ اس کی انّی دوسری طرف کو نکل گئی ، اور پرسکون روح ستم زدہ جسم کا ساتھ چھوڑ کر “ فان موعدکم الجنۃ ” کا تمغہ لے کر جادہ حق پر مر مٹنے والوں میں سب سے پہلا نام سمیہ کا لکھ گئی ،

      سلام اے سمیہ ! تیری قربانیوں پر ، تیرے صبر و ثبات پر ، تیرے عشق رسول ﷺ کی وارفتگی پر، تیرے عزم و استقلال پر ، تیری ہمت و جرات پر ،  تیری استقامت و شجاعت پر ، تیری بے باکی و بلند حوصلگی پر کہ تونے صنفِ نازک ہوکر مضبوطی کا ثبوت دیا ،  غلامی کے باوجود تونے اپنے آپ کو کفر و شرک سے آزادی کا سنگ میل بنا یا ، دنیاوی پستی و ناتوانی کے باوجود تونے قوتِ ایمانی کا بلند و بالا مینارہ قائم کیا ۔۔۔۔۔ 

Comments