کتابیں ہیں چمن اپنا ( چند الفاظ ) از ڈاکٹرفاروق اعظم قاسمی





ٹائٹل کتاب


کتابیں ہیں چمن اپنا


(چند الفاظ )

ڈاکٹر فاروق اعظم قاسمی

مشکی پور ، جمال پور ، کھگڑیا (بہار)

#9718921072

شورش کاشمیری کی ْ شب جائے کہ من بودمٗ ، مولانا عبد الماجد دریا بادی کی ْ آپ بیتی  ٗاور کلیم احمد عاجز مرحوم کی ْ وہ جو شاعری کا سبب ہوا ٌ جیسی کتابوں کے مطالعے کے ایک عرصے بعد عبد المجید قریشی کی یہ البیلی کتاب ْ کتابیں ہیں چمن اپنا ٗ  ہاتھ لگی ہے ۔ لاک ڈاؤن تیرا شکریہ ! علم و کتاب (واٹس ایپ گروپ ) تیری مہربانی ! 

عبد المجید قریشی علی گڑھ کے فاضل اور ملتان کے رہنے والے ہیں ۔وہ علم دوست بھی ہیں ، ادب والے بھی ہیں ، وہ پڑھنے والے بھی ہیں اور لکھنے والے بھی اور پرورش ِ لوح و قلم کرنے والے بھی ۔ کتابوں سے ان کا عشق ، ان کا لگاؤ اور ان کی دیوانگی قابل ِ دید و داد ہے ۔ ان کے ان ہی جذبات و احساسات کا ایک خوب صورت البم یہ کتاب ہے ۔ 
جناب یہ کتاب کیا کتابی کائنات کہیے ۔ بیک وقت  یہ کتاب دنیا بھر میں بسے اپنے خاندان کی مختلف شاخوں سے  باتیں کراتی ہوئی محسوس ہوتی ہے ۔ آپ بغیر کسی ْ ہرے پھٹکری ٗ کے دنیا کی کئی اہم لائبریریوں کی سیر کر لیتے ہیں اور سینکڑوں ادبا و شعرا اور اہل قلم سے آپ کی بات و ملاقات ہوجاتی ہے ۔ بھئی کتابوں کا عاشق ہو تو عبد المجید قریشی جیسا ؛بلکہ عاشقِ زار کہہ لیجیے ! کتابوں کو ماں جیسا پیار دینے والے اس دیوانے کو یہ بھی گوارا نہ تھا کہ کتاب بد صورت ہو ، کمزور ہو ، اسے ٹھوکر لگ جائے ، اس پر دھول جم جائے ، اس کا ورق مڑ جائے ، کتاب پر کوئی کچھ لکھ دے ؛ یہاں تک کہ ڈاک سے آئی کتاب پر بندھی رسی کا داغ بھی ان کے لیےبرداشت سے باہر تھا ۔ بسا اوقات وہ اپنی پسند کی کتابوں کے کئی نسخے منگاتے اور بنڈل کے بیچ کی صاف ستھری کاپی قریشی صاحب کی ہوتی اور دیگر ان کے احباب کی ۔ ان کی پسند کی کوئی کتاب دنیا کے کسی کونے میں شائع ہو گئی اور انھیں خبر بھی مل گئی ، پھر کیا بے چینی شروع ہو جاتی اور ان کی ساری توجہ اور توانائی اس کتاب کے حصول کے لیے وقف ہوجاتی ۔ اس شوق کی تکمیل کے لیے بہت سی مرتبہ انھیں ایک کے بدلے دس دس خرچ کرنے پڑجاتے تھے ۔ قریشی صاحب آئندہ شائع ہونے والی متوقع کتابوں کی فہرست پر بھی گھری نظر رکھتے ،رسائل کے اشتہارات دیکھتے اور بے صبری سے ان کتابوں کی اشاعت کا انتظار کرتے ۔ اگر انھیں کسی ذریعے سے یہ پتا چل جاتا کہ ان کی پسند کی کوئی کتاب زیرِ تصنیف ہے تو مصنف سے رابطہ کرتے ، بار بار انھیں اکساتے ، عنقریب اس کی اشاعت پہ انھیں ابھارتے ، معیاری کتاب لانے کے لیے طرح طرح کے مشورے دیتے یہاں تک کہ اس راہ میں مدد و خدمت کے لیے بھی خود کو مفت میں پیش کر دیتے ۔ 
ایک دفعہ قریشی صاحب نے دہلی کے ایک ناشر ِ کتب کو کسی کتاب کا آرڈر دیا ، پندرہ بیس روز کے شدید انتظار کے بعد کتاب کے بجائے اس کی روانگی کا خط آیا ، وہ اور بے چین ہو اٹھے ۔ وصال ِ یار کے اسی انتظار اور اضطرابی کیفیت کا حال ذرا ان ہی کی زبانی  سنیے :
ْخط تو مل گیا لیکن کتابوں کا پارسل نہ ملا ، دل تڑپ کر رہ گیا ، وقت کاٹے نہ کٹتا تھا ، خدا خدا کر کے رات ہوئی ، نیند کچھ آئی کچھ نہ آئی ، جوں توں کرکے رات کٹی ، وقت آخر گزر ہی گیا ، آنکھ کھلی ، گھڑی پر نظرڈالی ، چار بجے تھے ، بارش ہو رہی تھی، دسمبر  کا مہینہ تھا اور سردی اپنی جوبن پر تھی ۔ معاً میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ کہیں ہرکارہ ڈاک گاڑی سے ڈاک لینے سے نہ رہ جائے ، یہ خیال آتے ہی موسم کی شدت کے باوجود میں ریلوے اسٹیشن پہنچ گیا ۔ فاصلہ دو فرلانگ سے کیا کم ہوگا ۔ گاڑی آنے میں کچھ دیر تھی اور ہرکارہ بے چارہ حسب ِ معمول ڈاک کا انتظار کر رہا تھا ، تھوڑی دیر میں گاڑی آن پہنچی ۔ وہاں سے ڈاک وصول کی اور ہرکارے کو ہمراہ لے کر ڈاک خانے کی طرف چل پڑا ۔یقین فرمائیے ! اسٹیشن سے ڈاک خانے پہنچنا قیامت ہوگیا ، دل کی دنیا میں ہلچل مچی ہوئی تھی کہ دیکھیے کتابیں آج بھی آتی ہیں یانہیں ۔ اسی کشمکش میں میں ڈاک خانے پہنچ گیا اور اسی وقت ڈاک کھول ڈالی ، دیکھا کہ کتابوں کا پارسل موجود ہے ، اسے اٹھایا اور سینے سے لگایا ، اس وقت صبح کے پانچ بجے تھے اور دن نکلنے میں ابھی دو ڈھائی گھنٹے باقی تھے ٗٗ ۔ (کتابیں ہیں چمن اپنا ، ص : 30-31)کتابوں کے آنے میں جب تاخیر ہوجاتی اور ان کی قوت ِ برداشت جواب دینے لگتی تو وہ اللہ کے حضور گڑگڑا کر اس عذاب سے نجات کی دعائیں بھی مانگتے ۔
1992میں ہمدرد فاؤنڈیشن پریس کراچی نے اس کتاب کو شائع کیا ۔ اصل کتاب 272صفحات پر مشتمل ہے ۔کتاب کے اسکینر اور پی ڈی ایف مدون راشد اشرف صاحب (کراچی ) نے قریشی مرحوم کا مناسب ِ موضوع ایک طویل مضمون بعنوان ْ میری ادبی ڈائری ٗ بھی کتاب کے آخر میں ضم کر دیا ہے ۔ اب یہ کتاب 292صفحات کی ہو گئی ہے ۔ 
آخر الذکر مضمون سمیت کتاب  کل تیرہ مضامین یا ابواب پر مشتمل ہے ۔ کتاب بننے سے قبل یہ تمام مضامین مختلف وقیع رسائل کی زینت بن چکے ہیں ۔ اب ایک نظر ابواب پر :
ْ کتابیں ہیں چمن اپنا ٗ اسی عنوان سے اس کا پہلا مضمون بھی ہے ۔ اس میں کتابوں سے متعلق مشاہیر اہل ِ علم و کتاب کے خوب صورت تاثرات و خیالات کو پیش کیا گیا ہے ۔ ْ کتاب اور میں ٗ میں مصنف نے کتابوں سے اپنی شیفتگی و دیوانگی اور تعلق ِ خاطر کو بتایا ہے ۔ ْ کتابوں کے تعاقب میں ٗ کتابوں کی تلاش و اشاعت کی داستان ِ شوق پر مشتمل ہے ۔ ْ داستان ایک بے وفا کی ٗ مصنف کی ایک انتہائی محبوب کتاب ْ دربار ِ دُربار ٗ کے مصنف سے طویل مراسلت پر مبنی ہے ۔ اس میں قریشی صاحب کا انتظار ، تحمل اور غضب و غصے کا بھی پتا چلتا ہے اور کتاب کے مصنف ، شاعر صدق جائسی کی سستی اور بے توجہی کا بھی علم ہوتا ہے ۔ ْ میں اور میرا کتب خانہ ٗ میں کتابوں کے ساتھ اپنے رویوں کا اظہار کیا ہے ۔ ْ بن کھلے مرجھا گئے ٗ میں پچاس سے زائد ان کتابوں کا ذکر ہے جن کے بارے میں قریشی صاحب نے کہیں پڑھا تھا کہ وہ عنقریب شائع ہونے والی ہیں لیکن تیسیوں       سال کے بعد بھی اشاعت کی نوبت نہیں آئی ۔ ْ کتابیں اور قید خانے ٗ میں قید میں اور قید پہ لکھی جانے والی کتابوں کا ذکر جمیل ہے ۔ ْ جلوہ ہائے رنگ رنگ ٗ میں اردو سفرناموں اور ان کے خوبصورت ، قیمتی و معلوماتی اقتباسات بھی پیش کیے ہیں ۔ ْ من آنم کہ من دانم ٗ میں اردو آپ بیتیوں اور ان کے پُرلطف شہ پاروں سے تفریح طبع کا سامان مہیا کیا ہے ۔ ْ ذکر ِ علی گڑھ اردو ادب میں ٗ میں سر سید کے ساتھ ساتھ مشاہیر ِ علی گڑھ اور ان کے نام و کام پر لکھی کتابوں کا جائزہ پیش کیا ہے ۔ ْ کتب خانوں کی سیر ٗ میں ایشیا سمیت یوروپ و امریکا کے چند مگر اہم کتب خانوں کی سیر کرائی گئی ہے ۔ اور ْ تحریک پاکستان کتابوں کی دنیا میں ٗ میں تحریک پاکستان سے متعلق اردو و انگریزی زبانوں کی دو سو سے زائد کتابوں کا ذکر کیا گیا ہے ۔ اس مضمون کو تحریک ِ پاکستان کے باب میں کتابوں کا وضاحتی اشاریہ بھی کہہ سکتے ہیں ۔ اخیر میں ْ ادبی ڈائریٗ کے ذریعے قریشی صاحب نے کراچی کے ایک ادبی سفر اور وہاں کے مشاہیر ِ ادب سے ملاقات کا قصہ بیان کیا ہے ۔ 
یوں تو کتاب کا ہر باب ایک سے بڑھ کر ایک ہے لیکن ْداستان ایک بے وفا کی ٗ کی طوالت طبیعت کو بوجھل کرتی ہے اور ْ تحریک ِ پاکستان کتابوں کی دنیا میں ٗ کا ابتدائی حصہ کباب میں ہڈی کی سی بد مزگی پیدا کر دیتا ہے تاہم کچھ دیر بعد یہ کیفیت جاتی رہتی ہے اور پیدا ہونے والی معمولی بد مزگی کا تدارک ہوجاتا ہے ۔ کتابیں ہیں چمن اپنا ، جلوہ ہائے رنگ رنگ ، میں اور میرا کتب خانہ ، کتاب اور میں ، اور کتابیں اور قید خانے کا جواب نہیں ۔ ان میں بھی آخر الذکر و و تو بے حد دلچسپ اور لطف و حظ سے بھرپور ہیں ۔ کتاب کے مطالعے کے مزہ کو بجائے بتانے کے محسوس ہی کیا جا سکتا ہے ۔ کتاب کی تمام رنگا رنگی کے ساتھ مصنف کی علیگیریت ، سرسیدی اسلوب اور مجازی شعریت لکھنؤ کے ٹونڈے کباب ، دہلی کی نہاری اور حیدر آبادکی بریانی کو بھی پیچھے چھوڑ دیتی ہے ۔ اس البیلی کتاب کے مطالعے سے جہان کتابوں سے عشق اور مطالعے کا ذوق بیدار ہوتا ہے وہیں آج کے ایام ِ نظر بندی کی وحشت کو مانوسیت سے بدلتی ہے اور اس کی تنہائی سے  دوستانہ بھی قائم کر دیتی ہے ۔ اس کتاب کی ایک اہم خوبی یہ بھی ہے کہ مصنف نے اپنے اس کتابی انسائیکلو پیڈیا کو کائنات کی تمام کتابوں کی ماں قرآن مجید سے منسوب کیاہے ۔                 
                      


Comments