واقعۂ افک کی عصری معنویت :ڈاکٹر فاروق اعظم قاسمی



اماں عائشہ رضی اللہ عنہا

اور

واقعہ افک کی عصری معنویت

فاروق اعظم قاسمی )پی ایچ ڈی اسکالر)
 160,Periyar Hostel,JNU N Delhi 67
cell: 9718921072, Email: faqasmijnu@gmail.com


انبیاءکے سردار کے یارِ غار اور انبیاءکے بعد تمام انسانوں میں سب سے افضل و اشرف حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی چہیتی بیٹی ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی ذاتِ با برکات اور تقدس و پاکیزگی پر ایک سیاہ کار کے چند سیاہ حروف کو آج خوش نصیبی حاصل ہونے والی ہے( ان شاءاللہ)۔ حضرت صدیقہ ؓکی بے شمار خصوصیات و امتیازات ہیں ۔زبانِ رسالت و صداقت نے جب کائنات کی تین عظیم عورتوں کا ذکر کیا تو حضرت مریم و حضرت آسیہ ؓ کے ساتھ حضرت ؑعائشہ صدیقہ ؓ کا نام بھی لیا۔
(بخاری: 3770، مسلم: 2446، بحوالہ رحمت للعٰلمین 2/401
اماں عائشہ ؓ کے فضائل میں سے یہ بھی ہے کہ ان ہی کی گود میں سرورِکائنات نے آخری سانس لی اور ان ہی کے حجرہ میں حضور پر نور آسودہ خواب بھی ہیں۔
(بخاری: 4448، بحوالہ مذکور 2/407
ایلا، تحریم، تخییر، تیمم اور افک یہ پانچ واقعات ایسے ہیں جنھیں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے سوانح نگار نظر انداز نہیں کر سکتے۔اس وقت میری گفتگو کا موضوع ”واقعہ افک“ ہے۔ اس سے قبل کہ واقعہ افک سے کچھ رہنمائی حاصل کی جائے ،ذیل میں اس کا خلاصہ پیش کیا جا تا ہے۔ 
پیارے نبی ﷺ کا اندازِ سفر یہ ہوا کرتا تھا کہ قرعہ اندازی کے ذریعے کسی ایک زوجہ مطہرہ کو اپنا شریکِ سفر کرلیتے تھے۔ اس سفر میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ آپ کے ہمراہ تھیں۔ روانگی سفر کے وقت حضرت صدیقہ نے اپنی بہن حضرت اسماءؓ سے عاریةً ایک ہار لے کر گلے میں ڈال لیا تھا ۔اس وقت حضرت عائشہ ؓ کی عمر صرف چودہ سال تھی اور جسم و جثے کے اعتبار سے بھی وہ بہت دبلی پتلی تھیں۔سواری اونٹ کی تھی، کہیں پڑاؤ کرنا ہوتا تو ساربان ( اونٹ ڈرائیور) کجاوہ یا محمل اٹھا کر نیچے رکھ دیتا اور روانگی کے وقت اسی کجاوے کو اونٹ کی پیٹھ پر کس دیتا۔ یہی محمل حضرت عائشہ ؓ کی کیبین تھی۔ دبلی پتلی ہونے کی وجہ سے اس قدر ہلکی تھیں کہ کجاوہ اٹھانے والوں کو ذرا بھی احساس نہیں ہو پاتا تھا کہ اس میں کوئی ہے یا نہیں۔ غزوہ مریسیع سے واپسی میں اسلامی فوج نے ایک مقام پر پڑاؤ کیا ۔فوج میں بہت سے منافقین بھی شامل تھے۔ اس گروہ کی ہر ہر حرکت ا ور عمل اور دن رات کی ساری سرگرمیاںمسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے لیے ہوا کرتی تھیںاور آستین کے یہ سانپ ہر لمحے اس گھات میں لگے رہتے کہ کس طرح مسلمانوں کو ذہنی اور جسمانی اذیتوں میں ڈالا جائے اور ان کے شیرازے کو منتشر کیا جائے ۔چناں چہ منافقین کا گروہ بھی اپنے اسی کوڑھ کو لیے اسلامی فوج کے کے ہمراہ واپس ہو رہا تھا۔اگلی منزل کے لیے قافلے کی روانگی سے کچھ پہلے حضرت عائشہ ؓ قضائے حاجت کے لیے گئیں اور ذرا دور نکل گئیں ، ضرورت سے فراغت کے بعد انھیں علم ہوا کہ گلے سے ہار غائب ہے ، بڑی تشویش ہوئی ، وہ اسے ڈھونڈنے میں لگ گئیں ، ہار تو مل گیا لیکن واپسی میں کچھ تاخیر ہو گئی ۔ کم عمری اور ناتجربہ کاری کی وجہ سے انھوں نے یہ سمجھا کہ وہ جلد ہی واپس آجائیں گی اس لیے کسی کو اطلاع بھی نہ دی اور نہ انتظار کرنے کو کہا۔ وقت مقررہ پر قافلہ روانہ ہو گیا اور کجاوہ اٹھانے والوںکو حضرت عائشہ ؓ کے نہ ہو نے کا احسا س بھی نہ ہوا ۔اماں عائشہ ؓ جب لوٹ کر اپنے مقام پر آئیں تو وہاں کوئی بھی نہ تھا ، منظر دیکھ کر بہت حیران ہوئیں تاہم بڑی ہوشمندی سے کام لیتے ہوئے چادر اوڑھ کر وہیں پڑ گئیںتا کہ اگلی منزل پر قافلے کو جب میرے نہ ہونے کا علم ہوگا تو وہ ڈھونڈنے پہلے یہیں آئیں گے۔
ایک صحابی حضرت صفوان بن معطل ؓ کو یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ وہ قافلے کے پیچھے پیچھے رہیں اور قافلے کی گری پڑی چیزوں کی حفاظت بھی ان کی ذمہ داریوں میں تھی۔ قافلے کی روانگی کے بعد جب حضرت صفوان ؓ نے پڑاؤ کی جگہ کا جائزہ لیا تو دیکھا کہ حضرت عائشہ ؓ چادر سے لپٹی پڑی ہیں۔ حضرت صفوان کو بڑا افسوس ہوا ، انھوں نے درخواست کر کے حضرت صدیقہ کو اپنے اونٹ پر بیٹھایااور دوپہر تک وہ قافلے سے جا ملے۔ بس یہ تھا افک کا معمولی قصہ لیکن بد بخت منافقین نے اس واقعے کو تل کا تاڑ بنا کر پیش کیا اور حضرت صدیقہ ؓ کی پاک دامنی پر آنچ ڈالنے کی مذموم کوشش کی ۔ آج کے میڈیا کی طرح منافقین نے اس افواہ کو اس قدر ہوا دی کہ ان کے جال میں تین مسلمان حضرت حسان بن ثابت ؓ، حضرت حمنہ بنت جحش ؓ اور حضرت مسطح بن اثاثہ ؓ بھی آگئے۔ ان کے علاوہ تمام مسلمانوں نے بیک زبان ہو کر کہا کہ یہ تو بہت بڑا بہتان ہے۔ حضرت حسان ؓ اور حضرت حمنہ ؓ تو قافلے میں بھی نہ تھے البتہ اول الذکر کو حضرت صفوان ؓ سے ناچاقی تھی اور آخر الذکر ام المومنین حضرت زینب ؓ کی بہن تھیںاس لیے ان دونوں کو بد گمانی پیدا ہوئی۔ حضرت مسطح ؓ اللہ جانے کیوں اس چکر میں پھنسے۔ یہ حضرت ابو بکر ؓ کے خالہ زاد بھانجے تھے اور حضرت صدیق ؓ ہی کی زیرِ کفالت تھے۔
اماں عائشہ بہت دنوں تک اس واقعے سے بے خبر رہیں۔ ایک روز حضرت مسطح ؓ کی والدہ ہی ذریعے انھیں اس واقعے کا علم ہوا ، پھر کیا تھا ، ان کی نیند چین سب حرام ہو گیا اور کھانے پینے سے بھی بے گانہ ہو گئیں،ہر وقت آنکھوں سے آنسوؤ ں کا سمندر جاری رہتا ۔ رسول اللہ ﷺ بھی تذبذب میں پڑ گئے۔ ایک بار تو حضرت عائشہ ؓ کو ایسا لگا کہ وہ کویں میں ڈوب کر جان دے دیں۔ 
اللہ پر کامل یقین و بھروسے کے باوجود رسول اللہ ﷺنے اس واقعے کی تحقیق و تفتیش کا حکم دیا ۔ مثبت رپورٹ آجانے کے بعد آپ ﷺ نے عبدللہ بن اُبَی منافق کو سزا دینے کی بات کہی۔اسی کشمکش میں تھے کہ ایک دن آپ ﷺ اپنی سسرال گئے اور حضرت عائشہ ؓ سے کہا : اگر تم سے گناہ سرزد ہو گیا ہے توتوبہ کرولو ! اللہ ضرور توبہ قبول کرے گا اور اگر ایسا نہیں ہے تو اللہ خود تمہاری پاکدامنی کی گواہی دے گا۔ حضرت عائشہ نے کہا : نہ میں اقرار کر سکتی ہوں اور نہ انکار ۔ بس میرا کام صبر اور فیصلہ الٰہی کا انتظار ہے۔             چند ہی دنوں بعد رحمتِ الٰہی جوش میں آئی اور اس سلسلے میں سورہ نور کی نو آیات ( 11-19 ) نازل ہوئیں، ان کے ذریعے قرآن نے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دیا، منافقین کے جھوٹ کا بھانڈا پھوٹ گیااور رسوائی ان کا مقدر بنی ۔ اماں عائشہ ؓ سجدہ شکر میں گر پڑیں۔ اللہ رب العزت نے ان کی ذات کو اس طرح روشن کر کے دنیا والوں کو دکھا دیا کہ دوپہر کا سورج بھی مات پڑ جائے ۔ بعد میں الزام لگانے والوں کو اسی اسی کوڑوں کی سزا بھی ملی۔
 ( سیرتِ عائشہ ؓ ، علامہ سید سلیمان ندوی ؒ ، مکتبہ اسلامیہ لاہور ، 1905ء، ص: 74- 82
اس واقعے کی ربانی کاروائی کے بعد اماں عائشہ نے تینوں مسلمانوں کو دل سے معاف کر دیا تھا اور نہ صرف یہ کہ معاف کیا بلکہ آئندہ انھیں برا بھلا کہنے سے بھی سب کو منع کیا ۔ حضرت ابو بکر ؓ نے حضرت مسطح ؓ کو معاف ہی نہیں کیا بلکہ ان کے امدا دکی رقم پہلے سے دو گنی کردی اور اپنی قسم کے توڑنے کا کفارہ بھی ادا کیا۔    
اس واقعے نے ایک طرف جماعتِ صحابہ میں بے چینی اور اضطرابی کیفیت پیدا کر دی تھی کہ ایک ایسی خاتون جس کی چار پشت شرفِ صحابیت سے سرفراز ہو ، جس کا شوہر وجہِ کائنات اور سید الانبیاءہو، جس کا باپ سید الانبیاءکا یارِ غار اور افضل البشر ہو، جو خود حدیث و فقہ کی عالمہ و معلمہ ہو، جس کے بستر پر قرآن نازل ہوتا ہو، ایسی ہستی کی عصمت پر انگشت نمائی یقیناً دل و دماغ کو تہہ و بالا کرنے لیے کافی ہے ؛ لیکن اس کے بر عکس جب اس واقعے کے دوسرے پہلو پر غور کیا جائے تو اس کے جھروکے سے انسانی رہنمائی کے کئی جہان دکھائی دیتے ہیں۔ 
واقعۂ افک سے حضرت عائشہؓ کی عزت و عظمت میں بجائے کمی کے مزید اضافہ ہی ہوا۔ اس حادثے نے تھوڑی دیر کے لیے نبی امی ﷺ ، ان کے صحابہ ؓ اور بطورِ خاص اماں عائشہ ؓ اور ان کے اہلِ خانہ کو ایک بڑی آزمائش میں تو ضرور ڈال دیا تھا ؛ تاہم جلد ہی مصائب کے تمام بادل چھٹ گئے اور چودھویں کے چاند کی طرح روشن و تابناک ہو کر حضرت صدیقہ ؓ کی ذات سامنے آئی اور رہتی دنیا تک لیے یہ پیغامِ جاوداں دے دیا کہ ماہتاب پر لاکھ تھوکا جائے وہ تھوکنے والے چہرے ہی کو آلودہ کرے گا ، اس عمل سے چاند کی چاندنی میں کوئی فرق نہیں آنے والا ۔ 
وحی ِ الٰہی کے ساتھ عہدِ رسالت میں صحابہ ؓ کی زندگی، ان کے شب و روز، ان کے ساتھ پیش آنے والے حادثات و واقعات، ہر ایک کے ذریعے اللہ کا ابدی قانون تشکیل پا رہاتھا۔ چناں چہ اس غیر معمولی واقعے سے ہمیں خواتین کے سلسلے میں چندخاص مسائل، شوہر بیوی کے مسائل،سفر کے بعض اہم مسائل، عاریت کے مسائل اور خبر و اطلاع کے رہنما اصول وغیرہ کا بھی علم ہوتا ہے۔
بظاہر اس واقعے کی دشواریوں کا سبب میری تنگ نگاہ میں ” ہار“ تھا ۔ ہار نہ زیبِ تن کیا جاتا نہ مشکلات سامنے آتیں۔ اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ سفر میں جہاں تک ہو سکے زیورات کے استعمال سے خواتین کو بچنا چاہیے۔ اُس وقت اس طرح کا مسئلہ پیش آیا تھااور آج کے مسائل کی نوعیت الگ ہے ۔آج چھین ،جھپٹ، چوری اور بد عنوانی کا دور ہے، کئی بار تو خواتین کو اپنے کان و ناک سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے، کبھی وہ شدید زخمی بھی ہوتی ہیں اور کبھی کبھی جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑ جاتا ہے۔ اس واقعے سے اس بات کا بھی علم ہوتا ہے کہ عاریت کی چیز کی حفاظت کی ذمہ داری اپنے سامان سے زیادہ بڑھی ہوئی ہے۔ اوپر اپنے مملوکہ زیورات کے استعمال کی بات ہو رہی تھی لیکن سفر میں مستعار زیور کے استعمال سے مزید احتیاط برتنے کی ضرورت ہے اس لیے کہ اس واقعے کی سنگینی کو بڑھانے میں مانگے کے زیور کی فکر کے غم کا بھی بڑا کردار ہے۔
ؑ یہاں سے ہمیں یہ سبق بھی ملتا ہے کہ سسرال میں رہتے ہوئے عورتوں پر جب کوئی مصیبت آن پڑے تو اسے کچھ دنوں کے لیے اپنے مائیکے چلے جانا چاہیے، اس سے غم ذرا ہلکا ہو جاتا ہے۔اسی طرح اگر ایسا کوئی معاملہ پیش آجائے کہ کسی خاتوں کو کسی غیر محرم کی مدد درکار ہو تو اس کے لیے بھی یہاں بہترین رہنمائی موجود ہے۔ اس واقعے نے یہ بھی بتایا کہ صبر کا پھل بہت میٹھا ہوتا ہے۔ خدا نخواستہ آج بھی اگر ایسا کوئی واقعہ پیش آجاتا ہے اور ایک سچی مومنہ عورت اس پر صبر سے کام لیتی ہے اور معاملے کو اپنے رب کے سپرد کر دیتی ہے تو اللہ اسے ضرور مسرت عطا کرتا ہے اور پہلے سے بھی کہیں زیادہ ا سے با عزت کر دیتا ہے۔یہاں ایک لطیف اشارہ یہ بھی ملتا ہے کہ آدمی اپنے قابلِ ذکر سفر میں اپنی رفیقِ حیات کوہمراہ کرلے ، اگر ایک سے زائد بیویاں ہوں تو قرعہ اندازی کر کے کسی ایک کو منتخب کر لے۔
سفر کے سلسلے میں بھی اس واقعے سے بڑی رہنمائی حاصل ہوتی ہے کہ آج بھی اگر گروپ کی شکل میں سفر درپیش ہو اور کسی فرد کو اپنی کسی ضرورت سے کہیں جانا ہو تو وہ اپنے ذمہ دارِ سفر کو اطلاع دے کر جائے جیسا کہ فی زمانہ تبلیغی جماعت بڑی پابندی سے اس اصول پر کار بند ہے۔ لیکن اس کے باوجود کوئی فرد اپنے قافلے سے بھٹک جائے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ بڑی ہوشمندی سے کام لے کر کوئی ایسی تدبیر کرے کہ اسے ڈھونڈنے والا بغیر کسی مشقت کے بآسانی ڈھونڈلے۔ 
اس واقعے سے یہ درس بھی ملتا ہے کہ اولاًبے تحقیق بات کرنی ہی نہیں چاہیے اور اگر بے تحقیق خبر سامنے آئے تو آنکھ کان بند کر کے اس پر صداقت کی مہر بھی نہیں لگانی چاہیے ۔ یہاں میڈیا اور عوام دونوں کے لیے رہنما اصول موجود ہیں۔ اس واقعے میں دو معاشرتی نکتوں کی طرف بھی واضح اشارہ ملتا ہے۔ ایک تو یہ کہ غلط الزام لگانے والے اگر اپنی غلطیوں کی معافی نہیں مانگتے اور توبہ نہیں کرتے تو اسے دنیا و آخرت دونوں میں رسوائیوں کا سامنا کرنا پڑے گا جو بڑی سخت بات ہے۔ لیکن اگر کسی کو سزا مل گئی یا اس نے سچی پکی توبہ کر لی تو اب اسے لعنت ملامت کے ذریعے اذیت پہنچانا گناہ کی بات ہے۔ اسی طرح اگر کوئی اپنے کسی عزیز کی کفالت کر رہا ہے تو اس کی مدد سے ہاتھ کھینچنے میں بھی عجلت سے کام نہیں لینا چاہیے ؛ لیکن غصے میں آکر اس کی مدد کرنے سے انکار کر دیا اور کچھ نہ دینے کی قسم کھا لی تو قسم توڑ کر کفارہ ادا کرے اور معاملہ رفع دفع ہوجانے کے بعد پھر سے اس کی رقم بحال کر دے۔ 
اسی طرح اس واقعے سے بڑی وضاحت کے ساتھ ایک خاص فکر کی بھی تردید ہوجاتی ہے جس میں رسولِ خدا ﷺ کو عالم الغیب قرار دیا جاتا ہے جو در اصل صرف اللہ ہی کے ساتھ خاص ہے۔ اگر فی الوقع اللہ کے رسول ﷺ عالم الغیب ہوتے تو رسول اللہ ﷺ کا تذبذب میں پڑنا چہ معنیٰ دارد؟ ! پھر اس کے نتیجے میں حضرتِ صدیق ؓ کے گھرانے کا، اماں عائشہ ؓ کا اور جماعتِ صحابہ ؓ کا اضطرابی کیفیت سے دو چار ہونا ،اور یہ سلسلہ کوئی ایک دو روز کا نہیں تھا ؛ ایک مہینے سے زائد یہ کشمکش جاری رہی اور سب حیران و پریشان رہے ۔ کیا نعوذ باللہ رسولِ بر حق عالم الغیب ہونے کے با وجود حضرتِ صدیقہ ؓ سے مذاق فرما رہے تھے ؟ ( العیاذ باللہ ثم العیاذ باللہ) ۔
اللہ ! تمام انسانی دنیا کو اس واقعے سے سبق حاصل کرنے کی توفیق بخشے اور بطورِ خاص اس امتِ مرحومہ کو اماں عائشہ ؓ کی پاک دامنی کا کچھ حصہ عطا کردے!آمین۔       


Comments