غیروں کی ترقی کا راز ؟ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ , How do muslims progress, by molana Ashraf ali thanwi



غیروں کی ترقی کا راز کیا ہے ؟

افادات : حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ 
پیشکش: تنویر خالد
      آج کل ترقی کی پکار بہت ہے ، ہر شخص ترقی کا طالب ہے ، اور دوسری قوموں کی ترقی دیکھ کر مسلمانوں کے منھ میں پانی بھر بھر آتا ہے۔ اور ان کے لیڈر بار بار اس میں غور کرتے ہیں ،کہ دوسری قوموں کی کا راز کیا ہے ؟ مگر اب تک اس حقیقت تک کوئی نہیں پہنچا ۔ کسی نے کہا یہ لوگ سود لیتے ہیں اس وجہ سے ترقی ہورہی ہے ، مگر یہ بالکل غلط ہے ؛ کیوں کہ اگر اس میں خاصیت ہوتی تو چاہیے کہ جو مسلمان لیتے ہیں ان کو بھی ترقی ہوتی ؛ حالاں کہ دوسری قوموں کے مقابلہ میں وہ بھی کچھ ترقی یافتہ نہیں ہیں ۔ 
بعض کہتے ہیں کہ شریعت میں چوں کہ تجارت کی بعض صورتوں کو ناجائز قرار دیا ہے، اس لیے مسلمان ترقی نہیں کر سکتے ؛ مگر یہ بھی غلط ہے ؛ کیوں کہ معاملات میں حدود شرعیہ کے پابند کتنے تاجر ہیں ذرا مجھے تو بتاؤ، ان شاءاللہ دو چار کے سوا کوئی نہ ملے گا ، پھر ان مسلمان تاجروں کو ترقی کیوں نہیں ہوتی ؟ یہ کون سے ناجائز معاملات کو چھوڑ دیتے ہیں غرض سب کی مشق اسلام پر ہے کہ مذہب ہی ترقی سے مانع ہے۔
غیر قوموں کی جو باتیں ترقی میں دخیل ہیں وہ دوسری ہیں ۔ وہ ان کی خاص صفات ہیں ، جو انھوں نے آپ ہی کے گھر سے سیکھی ہیں۔ 
مثلًا: منتظم ہونا ، مستقل مزاج ہونا ، پابند وقت ہونا ، متحمل ہونا ، انجام کو سوچ کر کام کرنا ، صرف جوش سے کام نہ کرنا ہوش سے کام لینا ، آپس میں اتحاد و اتفاق کرنا ، ایک دوسرے کے راز کو چھپانا ، یہ سب وہ باتیں ہیں جن کی تعلیم اسلام نے دی ہے اور ان احکام یہ خاصیت ہے کہ ان کو اختیار کرنے سے ترقی ہوتی ہے، خواہ کوئی بھی اختیار کرے ۔ 
        اب مسلمانوں نے تو ان احکام پر عمل کرنا چھوڑ دیا ؛ نہ ان میں اتفاق ہے ؛ نہ رازداری کا مادہ ہے ؛ نہ انتظام ہے ؛ نہ وقت کی پابندی ہے ؛ نہ انجام بینی ہے ؛ جو کام کرتے ہیں جوش سے کرتے ہیں ، ہوش سے نہیں کرتے ۔ اس لیے ان کو تنزل ہے، اور غیر قوموں نے ان کے گھر سے چرا کر ان باتوں پر عمل شروع کر دیا تو ان احکام کی خاصیت ظاہر ہوئی ، کہ ان کو ترقی ہونے لگی ۔ 
      اوپر مذکور صفات کے علاوہ ایک اور قیمتی پارس نما متاع سے ہمیں نوازا گیا ہے ،جس کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ مٹی کو بھی سونا بنا دے ،مگر اس پارس کو غیروں نے پتھر سمجھ کر چھوڑ رکھا ہے ، خیر وہ تو غیر ہیں ؛ اس پارس کو تو ہم نے بھی پتھر ہی سمجھ رکھا ہے ۔ وہ پارس ایمان و توحید ، اعتقاد و رسالت اور نماز روزہ وغیرہ ہیں ۔ افسوس آپ کو اپنے گھر کی قدر نہیں ، اگر آپ میں وہ صفات ہوتیں جو دوسری قوموں نے آپ سے لے لی ہیں تو پارس کے ساتھ مل کر آپ کو وہ ترقی ہوتی جو غیر قوموں کے خواب میں بھی کبھی نہیں آئی ہوگی ۔آپ کو وہ عروج حاصل ہوتا جو آپ کے اسلاف کو حاصل تھا ، کوئی ان کے ساتھ آنکھ نہ ملا سکتا تھا ؛ مگر آج کل مسلمانوں کو یہ سمجھ میں نہیں آرہا ہے 
سورہ النور 
وَعَدَ  اللّٰہُ  الَّذِیۡنَ  اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّھممۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِھِمۡ ۪ وَ لَیُمَکِّنَنَّ لَھُمۡ دِیۡنَھُمُ  الَّذِی ارۡتَضٰی لَھُمۡ وَ لَیُبَدِّلَنَّھُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِھِمۡ  اَمۡنًا ؕ یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَا  یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا ؕ وَ مَنۡ  کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ  الۡفٰسِقُوۡنَ ﴿۵۵﴾
ترجمہ: 
(تم میں سے جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں، ان سے اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ انہیں ضرور زمین میں اپنا خلیفہ بنائے گا، جس طرح ان سے پہلے لوگوں کو بنایا تھا، اور ان کے لیے اس دین کو ضرور اقتدار بخشے گا جسے ان کے لیے پسند کیا ہے، اور ان کو جو خوف لاحق رہا ہے، اس کے بدلے انہیں ضرور امن عطا کرے گا۔ (بس) وہ میری عبادت کریں، میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ اور جو لوگ اس کے بعد بھی ناشکری کریں گے تو ایسے لوگ نافرمان ہوں گے۔۔۔۔۔

     ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ان کاموں کو بھی ترقی میں کوئی دخل ہے ؟ حالاں کہ اس آیت میں ایمان اور عمل صالح پر صاف صاف وعدہ ہے ؛ زمیں کی بادشاہت اور غلبہ کا ؛ مگر مسلمان یہ سجھتے ہیں کہ ایمان ، نماز اورروزہ میں بھی کچھ قوت ہے ، اور اس سے بھی ترقی ہوتی ہے ۔ افسوس کہ غیروں نے تو ان اعمال کی قدرو قیمت کو پہچانا ہی نہیں ؛ ہم بھی ان کو سراسر بے کار اور لغو ہی سمجھ رہے ہیں۔ 
( اشرف الجواب )

Comments