نکاح کو آسان بنائیے / محمد رضی الاسلام ندوی، Nikah ko aasan banaen


نکاح کو آسان بنائیے


بشکریہ روزنامہ خبریں دہلی



محمد رضی الاسلام ندوی


          جنسی جذبہ انسان کی فطرت میں داخل ہے ۔ اس کی تکمیل 

کے لیے انسانوں نے عجیب و غریب طریقے اختیار کیے ہیں ۔ کچھ 

مذاہب کے ماننے والے سمجھتے ہیں کہ یہ بہت قبیح عمل ہے ۔ ان 

کا ماننا ہے کہ انسان اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک وہ 

اپنے اس جذبے کو نہ دبائے اور نہ کچلے ۔ ہم جانتے ہیں کہ عیسائی 

راہبوں اور ہندو جوگیوں میں یہ تصور پایا جاتا ہے ۔ ان لوگوں 

میں اپنے جنسی جذبے کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے اور اس کی 

ترغیب بھی دی جاتی ہے ۔ دوسری طرف کچھ لوگوں نے اس کو 

پورا کرنے کی کھلی چھوٹ دے دی ہے ۔ ان کے یہاں کوئی 

پابندی نہیں ہے ۔ انسان جس طرح چاہے اپنے اس جذبے کی 

تکمیل کر لے ۔




           اسلام نے جنسی جذبہ کی تکمیل کے لیے نکاح کے علاوہ 

کسی اور طریقے کو جائز نہیں قرار دیا ہے ۔ اس نے سماج کو یہ 

حکم دیا ہے کہ تمہارے اندر جو غیر شادی شدہ ہوں ان کے نکاح 

کراؤ اور وہ نو جوان یا وہ لوگ جو غیر شادی شدہ ہوں ان کو بھی 

تاکید ہے کہ وہ شادی کے بندھن میں بندھ جائیں ۔ (النور:۲۳) 

قرآن سماج کی یہ ذمہ داری قرار دیتا ہے کہ ان کے درمیان کوئی 

بھی شخص ، خواہ وہ کسی بھی عمر کا ہو ، بغیر نکاح کے نہ رہے ۔ 

اللہ کے رسول ﷺ نے نوجوانوں کو مخاطب کرکے فرمایا ہے : 

”نوجوانو ! تم میں سے جو بھی نکاح کرنے کی استطاعت رکھتا ہو ، 

اسے نکاح کر لینا چاہیے ۔ اس لیے کہ اس سے نگاہوں کو پاکیزگی 

حاصل ہوتی ہے اور شرم گاہ کی جنسی جذبہ کی حفاظت ہوتی ہے ۔ 

“(بخاری،مسلم) مردوں کو اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ وہ 

عیاشیاں کریں ، کھلے چھپے بدکاری کریں یا ناجائز تعلقات قائم کریں 

۔ اسی طرح عورتوں کو بھی اجازت نہیں ہے کہ وہ نکاح کے 

بندھن میں نہ بندھیں اور کھلے چھپے آوارگی کا مظاہرہ کریں یا 

چوری چھپے عیاشیاں کریں ۔




            اسلام میں زنا کو مشکل سے مشکل تر بنایا گیا ہے اور اس 

کی سزا قرآن میں بیان کی گئی ہے کہ اس کے مرتکب شخص کو 

کوڑے مارے جائیں گے اور اگر وہ شادی شدہ ہے تو اسے پتھر مار 

مار کر ہلاک کر دیا جائے گا ۔ اس کے مقابلے میں نکاح کو بہت 

آسان بنایا گیا ہے ۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے : ”سب 

سے زیادہ با برکت نکاح وہ ہے جس میں کم سے کم خرچ ہو _ 

“(احمد)



            عام طور سے نکاح کے موقع پر بہت خرچ کیا جاتا ہے ، 

دل کے ارمان نکالے جاتے ہیں ، پُر تکلف دعوتیں ہوتی  ہیں ، 

بڑی تعداد میں دولہا ،دلہن اور رشتہ داروں کے جوڑے تیار کیے 

جاتے ہیں ۔ ان مصارف کے لیے قرض تک لینے کی نوبت آجاتی 

ہے ۔ لیکن اللہ کے رسول ﷺ نے اس نکاح کو سب سے بہتر 

قرار دیا ہے جس میں سب سے کم خرچ ہو اور جو سب سے زیادہ 

آسانی سے انجام پائے ۔



           اللہ کے رسول ﷺ کی خدمت میں ایک عورت آئی اور 

کہا کہ مجھ سے نکاح کر لیجیے ، یا کسی اور سے میری شادی کر دیجیے 

۔ آپؐ خاموش رہے ۔ وہ عورت بیٹھ گئی ۔ کچھ دیر کے بعد ایک 

صحابی نے کہا : اے اللہ کے رسول ﷺ ! اس عورت کا نکاح مجھ 

سے کر دیجیے ۔ آپ ؐ نے پوچھا : تمہارے پاس کچھ ہے؟ اس نے 

کہا : کچھ نہیں ہے ۔ آپؐ نے فرمایا : کچھ تو ہوگا ۔ اس نے عرض 

کیا : کچھ نہیں ہے ۔ آپ ؐ نے فرمایا : اپنے گھر جاؤ اور دیکھو ، جو 

بھی ہو ، لے آؤ ۔ اللہ کے رسول ﷺ کی تاکید کے بعد وہ 

صحابی چلے گئے ۔ کچھ دیر کے بعد واپس آئے اور کہا : میرے پاس

کچھ نہیں ہے ۔ آپ ؐنے فرمایا : تمہارے پاس لوہے کی انگوٹھی تو 

ہوگی؟ انھوں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ! وہ بھی نہیں 

ہے ۔مگر اس وجہ سے نکاح روکا نہیں گیا ۔ آپؐ نے فرمایا : تمہیں 

جو کچھ قرآن یاد ہے ، اسے اس عورت کو سکھا دینا ۔ اسی کے 

عوض میں اس کو تمہارے نکاح میں دیتا ہوں ۔ (بخاری ، مسلم)



          ایک مرتبہ ایک نوجوان آپ ؐ کے پاس آیا اور کہا : اے 

اللہ کے رسولﷺ ! میں نکاح کرنا چاہتا ہوں ، لیکن کہیں پیغام 

بھیجتا ہوں تو لوگ مجھے اپنی لڑکی دینے سے انکار کر دیتے ہیں ۔ 

وہ نوجوان پچھنا لگانے کا کام کیا کرتا تھا ۔ ہمارے سماج میں بھی 

لوہار ، نائی اور اس طرح کے لوگوں کو بد ذات سمجھا جاتا ہے ۔ 

چوں کہ وہ ایک معمولی پیشہ کرتے تھے ، اس لیے لوگ انھیں 

اپنی بیٹی دینے کے لیے راضی نہ تھے ۔ اللہ کے رسول

 ﷺ نے اس نوجوان سے فرمایا کہ تم فلاں قبیلے میں چلے جاؤ اور 

اس قبیلے کے سردار سے کہنا کہ مجھے اللہ کے رسول ﷺ نے 

بھیجا ہے ، کہ آپ اپنی بیٹی سے میرا نکاح کر دیں ۔ اس طرح 

اللہ کے رسول ﷺ نے ان کے نکاح کا بھی انتظام کر دیا ۔



           اس سے آگے کی بات یہ ہے کہ آج کل ہمارے سماج میں 

دوشیزائیں بیٹھی رہتی ہیں ، ان کے رشتے نہیں مل پاتے ہیں ۔ اللہ 

کے رسول ﷺ اور صحابہؓ کے زمانے میں مطلقہ یا بیوہ عور ت گھر 

میں بیٹھی رہے ، اس کا کوئی تصور نہیں تھا ۔ ایک عورت کی کسی 

وجہ سے طلاق ہو گئی ہو یا وہ بیوہ ہو گئی ہو تو اس کی دوسری 

شادی ہوجاتی تھی ، تیسری شادی ہوجاتی تھی ، چوتھی شادی 

ہوجاتی تھی ۔ عمر کے کم یازیادہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا 

۔ کم عمر لڑکیوں کی شادی بڑی عمر کے مردوں سے ہوجاتی تھی 

اور زیادہ عمر کی عورتوں کی شادی نو عمر لڑکوں سے ہوجاتی تھی ۔ 

اس معاملہ میں کوئی روک ٹوک اور دشواری نہیں تھی ۔



           حضرت عاتکہؓ کا نکاح حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر ؓ ، 

حضرت زید بن الخطاب ؓ ، حضرت عمر فاروق ؓ، پھرحضرت حسن بن 

علی رضی اللہ عنہ سے یکے بعد دیگرے ہوا ۔ ایک شہید ہوجاتا تو 

دوسرے سے ان کا نکاح ہوجاتا تھا ، یہاں تک کہ ان کا 

لقب’زوجۃ الشھداء‘(شہیدوں کی بیوی) پڑ گیا تھا ۔ اسی طرح 

حضرت اسماء بنت عمیسؓ کا نکاح حضرت جعفر بن ابی طالبؓ، 

پھرحضرت ابو بکرؓ اور ان کے بعد حضرت علیؓ سے ہوا ۔ حضرت 

فاطمہ بنت قیسؓ کوان کے شوہر نے طلاق دے دی تو ان کے 

پاس تین رشتے آگئے ۔ انھوں نے آں حضرت ﷺ سے مشورہ 

کیا تو آپؐ نے چوتھا رشتہ حضرت اسامہ بن زیدؓ کا بتایا اورانھوں 

نے آپ ؐ کے مشورہ پر عمل کیا ، حالاں کہ دونوں کی عمروں میں 

کافی تفاوت تھا ۔



           اسلام میں جہیز کا کوئی تصور نہیں ہے ۔ عہد نبوی میں 

جتنی شادیاں ہوئیں ، کسی میں بھی جہیز کا کوئی تذکرہ نہیں آتا ہے 

۔ آج معاشرہ میں جس بڑی مقدار میں اور جس دکھاوے کے 

ساتھ جہیز کا لین دین ہوتا ہے اس کی دین میں کوئی شرعی حیثیت 

نہیں ہے ۔ اللہ کے رسول ﷺ کی ہر بیوی کا مہر پانچ سو درہم 

تھا ۔ یہی مہر آپؐ کی صاحب زادی حضرت فاطمہؓ کا بھی تھا ۔ 

حضرت علی ؓ شروع ہی سے آپ ؐکے پروردہ تھے ، آپؐ کے ساتھ 

رہتے تھے ۔ جب نکاح کا موقع آیا تو آپؐنے ان سے پوچھا : 

تمہارے پاس کیا ہے؟ انھوں نے جواب دیا : میری ذاتی ملکیت 

میں کچھ نہیں ہے ۔ میں تو شروع ہی سے آپ کے ساتھ رہاہوں 

۔ حضور ﷺ نے فرمایا : تمہارے پاس جو زرہ ہے اسے بیچ لاؤ ۔ 

انھوں نے زرہ بیچی ۔ اس سے جو رقم ملی اس سے آپؐ نے گھر 

گرہستی کا سامان خرید وایااور اسی سے مہر ادا کر وایا ۔




          آج کل باراتیوں کی لمبی لسٹ بنتی ہے ۔ لڑکے کے چچا اور 

چچیاں ، خالو اور خالائیں ، پھوپھا اور پھوپیاں ، پڑوسی ، دوست و 

احباب ، غرض ایک لمبی فہرست تیار ہوتی ہے ۔ اس موقع پر کسی 

کو نظر انداز کیا جاتا ہے یا بھول کر اس کا نام چھوٹ جاتا ہے تو 

وہ ناراض ہوجاتا ہے ۔ پھر لڑکے والے لڑکی والوں سے کہتے ہیں 

کہ ہمیں کچھ نہیں چاہیے ۔ ہم تو صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے 

ساتھ جو باراتی آئیں ان کی خوب اچھی طرح خاطر داری ہو ۔ غور 

کریں ، یہ کتنی بڑی زیادتی ہے کہ لڑکے والے اپنے مہمانوں کو 

زبر دستی لڑکی والوں کا مہمان بنا دیتے ہیں ۔ عہد نبوی میں ہونے 

والی شادیوں میں بارات کا کوئی تصور نہیں تھا ۔ حضرت عبد 

الرحمن بن عوفؓ کا شمار مدینہ کے انتہائی مال داروں میں ہوتا تھا ۔

ان کا جب نکاح ہوا تو انھوں نے اللہ کے رسول ﷺ کو بھی 

بلانے کی ضرورت نہیں سمجھی ۔ بعد میں جب آپ ؐ کو معلوم ہوا 

تو آپؐ نے ان سے فرمایا : اے عبد الرحمن !ولیمہ کرو ، چاہے اس 

میں ایک بکری ہی ذبح کرو ۔ ہم غور کریں ، اللہ کے رسول 

ﷺ کی ذات کتنی با برکت اور محترم تھی ۔ ایک چھوٹی بستی میں 

نکاح کی مجلس ہوتی ہے ، لیکن آپؐ کو بلانے کی ضرورت محسوس 

نہیں کی جاتی ۔



          ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہندوستانی معاشرہ میں ہم نے اپنے 

اوپر بہت سے بوجھ لاد لیے ہیں ۔ جب تک ہم ان سے دوری 

اختیار نہیں کریں گے اور ان کو اتار نہیں پھینکیں گے ، ہمارے 

لیے صحیح اسلامی معاشرہ کا نمونہ پیش کرناممکن نہ ہوگا ۔ ہر نکاح 

کی تقریب میں نکاح کے فضائل اور مسائل بیان کیے جاتے ہیں ، 

اس کی تفصیلات پیش کی جاتی ہیں ، لیکن عمل کا جذبہ مفقود ہوتا 

ہے ۔ اگر ہم اپنی ایجاد کی ہوئی رسموں کو چھوڑ کر اسلامی 

تعلیمات پر عمل کرنے لگیں اور ان کا عملی نمونہ پیش کریں تو نہ 

صرف یہ کہ معاشرہ کی اصلاح ہوگی ، بلکہ جو غیر مسلم بھائی 

ہمارے آس پاس رہتے ہیں ، ان کے سامنے بھی اچھا نمونہ پہنچے 

گا۔



(مضمون نگار جماعت اسلامی ہند کے شعبۂ اسلامی معاشرہ کے سکریٹری ہیں۔)



روزنامہ خبریں نئی دہلی، 28 اگست 2019

   

Comments